يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
لوگو! اپنے آپ پر اللہ کے احسان کو یاد رکھو، کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دے (یاد رکھو) اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، پھر تم کہاں [٦] سے دھوکہ کھا جاتے ہو
فہم القرآن: ربط کلام : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو رحمت اور نعمتوں سے نوازنے والا ہے اس کے سوا کوئی کسی کو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی عطا نہیں کرسکتا۔ وہی منعم حقیقی اور خالقِ کل ہے اس کا ارشاد ہے کہ لوگو! میری نعمتوں کو یاد رکھا کرو۔ جب انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ مجھے صرف اللہ ہی نوازنے والاہے، وہی میرا رازق اور خالق ہے تو پھر اس کے حاشیہ خیال سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ مجھے کوئی اور بھی نوازسکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ لوگوں سے استفسار فرماتا ہے کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے رزق فراہم کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں۔ جب اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر کس بنیاد پرتم دوسروں کو داتاو دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا کہتے اور سمجھتے ہو؟ یاد رہے کہ یہاں الٰہ کا لفظ خالق اور رازق کے معنٰی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو ملا کر کیوں گمراہی میں بھٹکتے ہو؟ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کو کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت بھی عطا نہیں کرسکتا۔ 2۔ اللہ ہی کائنات کا خالق اور رازق ہے۔ 3۔ اس کے سوا زمین و آسمان میں کچھ بھی کوئی دینے والا نہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو داتا و دستگیر کہنے والا راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے۔