قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
آپ ان سے کہئے کہ : اگر میں نے تم سے کچھ اجرت مانگی تو وہ تم ہی رکھو [٧٢]۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے۔
فہم القرآن: (آیت47سے50) ربط کلام : آدمی کی حماقت کی ایک وجہ اس کا مفاد اور لالچ ہوا کرتا ہے نبی معظم (ﷺ) کو لوگوں سے کوئی دنیوی مفاد نہ تھا جس بنا پر کفار کے سامنے حق بیان کرتے ہوئے چار استفسار کیے گئے ہیں۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! انہیں فرما دیں کہ کیا میں نے تم سے اس دعوت کے کام پر کسی قسم کا کوئی مطالبہ کیا ہے جس بنا پر تم مجھے مجنون کہتے ہو ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں کسی لالچ کے پیش نظرتمہارے نظریات کی مخالفت کرتا ہوں ؟ ہرگز نہیں میرا مقصد تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ لہٰذا اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے جو میرے اور تمہارے احوال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب مجھ پر حق نازل کرتا ہے جسے میں من و عن تم تک پہنچا رہا ہوں۔ اس سے کسی کا کوئی معاملہ اور بات پوشیدہ نہیں کیونکہ وہ ہر قسم کے غیب سے واقف ہے۔ یاد رکھو ! حق آشکا رہ ہوچکا ہے کہ معبودان باطل نے نہ پہلی بار کسی چیز کو پیدا کیا اور نہ دوسری مرتبہ کسی کو پیدا کرسکتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود تم اپنے نقطہ نظر کے مطابق مجھے بھٹکا ہوا سمجھتے ہو تو اس کا وبال مجھ پر ہوگا اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ اس وحی کا نتیجہ ہے جو میری طرف میرا رب بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات فوری طور پر سننے والا ہے۔ یہ آپ کے بارے میں ایک سوال کا جواب ہے ورنہ آپ (ﷺ) حق پر تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ یٰس میں قسم کھا کر فرمایا ہے۔ ﴿یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾[ یٰسٓ: 1تا4] ” یٰسٓ۔ قسم ہے قرآن حکیم کی۔ کہ یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں۔ اور سیدھے راستے پر ہیں۔“ ان آیات میں قل کہہ کر چار باتیں آپ (ﷺ) کی زبان سے کہلوائی گئی ہیں۔1 ۔میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔2۔ جو کچھ میں تمہیں پہنچاتا ہوں وہ ” اللہ“ ہی کا نازل کرتا ہے۔ 3۔ حق یہ ہے کہ معبودان باطل نہ پہلی بار پیدا کرسکتے ہیں اور نہ دوسری بار ۔4 ۔یقیناً میں اپنے رب کی ہدایت پر ہوں۔ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) دعوت کے بدلے میں کچھ نہیں لیتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سے باخبر ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ (ﷺ) پر حق نازل فرمایا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر بات فی الفور سنتا ہے۔ 5۔ نبی اکرم (ﷺ) حق پر قائم اور لوگوں تک حق پہنچانے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہر انسان کے قریب ہے اور اس کی ہر بات سننے والا ہے : 1۔ بے شک میرا رب دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ( آل عمران :38) 2۔ بیشک اللہ دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ( ابراہیم :39) 3۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات :1) 4۔ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (ق :16) 5۔ اللہ تعالیٰ انسان کے قریب ہے اور ہر کسی کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ:186)