وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور یہ لوگ آپ سے کہتے ہیں کہ : ’’اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ (قیامت) کب پورا ہوگا ؟‘‘
فہم القرآن: (آیت29سے30) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتے تو کفار اس بات کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں کہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ سرور دو عالم (ﷺ) نے قرآن مجید کی روشنی میں یہ ثابت کردیا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ لیکن منکرین قیامت ہر قسم کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے باربار مطالبہ کرتے تھے کہ جس قیامت کے برپا ہونے کا آپ بار بار تذکرہ کرتے ہیں اور اسے اپنے رب کا وعدہ قرار دیتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو بتائیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ کیونکہ اس سوال کے متعدد جواب دیئے جا چکے ہیں اس لیے اس موقعہ پر آپ (ﷺ) کو فقط یہ حکم ہواکہ آپ انہیں یہ فرمائیں کہ قیامت کا دن متعین ہے جب وہ دن آئے گا تو نہ تم اسے ٹال سکو گے اور نہ کوئی اسے پہلے لا سکتا ہے۔ اس میں کوئی ایک لمحہ تقدیم و تاخیر نہیں کرسکتا۔ با لفاظ دیگر قیامت کا برپا کرنا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے جس کا اس نے ایک دن مقرر کر رکھا ہے کسی کے ٹالنے سے وہ دن ٹل نہیں سکتا اور کسی کے مطالبے پر وہ پہلے نہیں آسکتا۔ البتہ جس دن کے لیے تم عجلت کا مظاہرہ کرتے ہو وہ زمین و آسمان پر بھاری ہوگا(الاعراف:187)۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کا ایک دن مقرر ہے : 1۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام :12) 2۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے ضرور اکٹھے کیے جائیں گے۔ (الواقعۃ: 47تا50) 3۔ جس دن ” اللہ“ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ:109) 4۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن :7) 5۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انہیں خبر دے گا۔ ( المجادلۃ: 6تا18)