قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ
(اے نبی!) آپ ان سے کہئے کہ : جن کو تم اللہ کے سوا (الٰہ) سمجھ رہے ہو انھیں پکار کر دیکھ لو۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کے موجودات میں ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے، نہ ہی ان موجودات میں ان کی کچھ شرکت ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
فہم القرآن: (آیت22سے23) ربط کلام : شیطان کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ انسان سے شرک کروائے، مشرک کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بزرگوں کو اپنی اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے جس کی تردید کی گئی ہے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! ان لوگوں کو بتلائیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں اپنی مدد کے لیے بلائیں۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں اور نہ ہی ان میں کسی چیز میں حصہ دار ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی اللہ تعالیٰ کا معاون اور مددگار تھا اور ہے اور نہ ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ کی خدائی میں رائی کے دانے کے برابر بھی حصہ دار نہیں تو وہ اس کے حضور سفارش کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش کرپائے گا جسے وہ اجازت عنایت کرے گا۔ ہر دور کے مشرکوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت اور ریاضت سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اس لیے اگر بزرگ کسی کے حق میں سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو مسترد نہیں کرپائے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایسا اختیار نہیں دیا البتہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ سفارش کا حق دے گا وہ بھی کسی کے حق میں اتنی ہی سفارش کریں گے جتنی اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔ سفارش کرنے والے اور جن کے حق میں سفارش کی جائے گی وہ ڈر کے مارے بڑی آہستہ آواز اور چپکے سے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ رب ذوالجلال نے اس سفارش کا کیا جواب دیا ہے ؟ سفارش کرنے والا اور جس کے حق میں سفارش کی جائے گی وہ خوف کے مارے ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہمارا رب جو حکم صادر فرمائے گا وہ ہر حال میں حق اور عدل پر مبنی ہوگا کیونکہ وہ ظلم کرنے سے مبّرا اور ہر قسم کے شرک سے بلند وبالا ہے۔ بعض مفسرین نے اس گفتگو کو ملائکہ کی طرف منسوب کیا ہے کہ ملائکہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہر اعتبار سے حق اور سچ ہے۔ یہاں دونوں مفہوم لینے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ مسائل: 1۔ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک اور معاون نہ تھا اور نہ ہے اور نہ ہو گا 2۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ جس کو پکارتے ہیں وہ ذرہ برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ 3۔ مشرک جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی سفارش کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے حضور صرف وہی سفارش کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے مشرکوں کے تصورات سے بلندو بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کرنے کے آداب : 1۔ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ:255) 2۔ قیامت کے دن سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ:254) 3۔ کافر اور مشرک کو کوئی سفارش فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر :48) 4۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (انعام :51) 5۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المؤمن :18) 6۔ بزرگ اور سرداربھی سفارش نہ کریں گے۔ (الروم :13)