وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
ان لوگوں کے متعلق ابلیس نے اپنا گمان درست پایا [٣٣]۔ چنانچہ مومنوں کے گروہ کے سوا سب نے اسی کی پیروی کی۔
فہم القرآن: (آیت20سے21) ربط کلام : جو مصیبت پر صبر نہیں کرتا اور اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ شیطان کی بات کو سچ کر دکھاتا ہے۔ ہمیشہ ان لوگوں کی اکثریت رہی ہے۔ ابلیس غیب کا علم نہیں جانتا تھا لیکن وہ سمجھتا تھا کہ جن عناصر پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق کیا گیا ہے وہ باہم متصادم ہیں جس بنا پر آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنا آسان ہوگا۔ اس کے علاوہ ابلیس جِنّات کو بھی دیکھ چکا تھا کہ ان کی اکثریت گمراہ ہوچکی ہے۔ ابلیس کے اسی گمان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ابلیس نے اپنے گمان کو سچ کر دکھایا کہ مومنوں کی جماعت کے علاوہ باقی سب لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسا اختیار نہیں دیا جس سے وہ اپنی طاقت کے زور پر لوگوں کو گمراہ کرسکے۔ شیطان کو صرف یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے جھوٹے وعدوں، مکر وفریب اور برے اعمال کو فیشن کے طور پر پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرسکے۔ اسی بنیاد پر شیطان سچے اور پکے ایمان داروں کے سوا دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیاراس لیے دیا ہے کہ شیطان کے ذریعے امتیاز ہوسکے کہ کون شخص آخرت پر سچا اور پکا ایمان رکھتا ہے اور کون آخرت کے بارے میں شک کا شکار ہوتا ہے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ کا رب ہر چیز پر نگران ہے۔ آخرت پر ایمان کا اس لیے حوالہ دیا ہے کہ آخرت پر یقین رکھنے والا شخص بالآخر سیدھے راستے پر آجاتا ہے۔ کیونکہ اسے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے اعمال کا اپنے رب کے حضور جواب دینا ہے۔ نگران کی صفت بیان فرما کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا محافظ اور نگہبان ہے یعنی اس سے کوئی بات اور چیز پوشیدہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی آزمائش کرنے اور مومنوں سے گمراہوں کو جدا کرنے کے لیے اس نے شیطان کو ایک حد تک اختیار دے رکھا ہے جس بنا پر وہ ایسے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جن کا آخرت پر سچا اور پکا ایمان نہیں ہوتا۔ جس آدمی کا جس قدر آخرت کی جوابدہی کے بارے میں سچا اور پکا ایمان ہوگا وہ اسی قدر ہی شیطان کے پھندوں سے محفوظ رہے گا۔ کیونکہ شیطان کو اس طرح کا اختیار اور غلبہ نہیں دیا گیا جس بنا پر وہ لوگوں کو گمراہ کرسکے اس لیے قیامت کے دن جہنمیوں کے سامنے شیطان اپنے بارے میں اس بات کا اظہار کرے گا۔ کہ جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا تھا وہ سچا تھا اور جو وعدہ میں تمہارے ساتھ کیا کرتا تھا وہ جھوٹا تھا۔ میرا تم پر کوئی زور نہ تھا۔ بس میں نے تمہیں گمراہی کی دعوت دی جسے تم نے قبول کرلیا۔ اب مجھے ملامت کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ ہی تم میری مدد کرسکتے ہو۔ دنیا میں جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے رہے ہو میں اس کا انکار کرتاہوں۔ یقیناً ظالموں کے لے اذّیت ناک عذاب ہے (ابراہیم :32) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ سچا ہے اور شیطان کے تمام وعدے جھوٹے ہیں۔ 2۔ شیطان قیامت کے دن ہر قسم کے شرک سے انکار کردے گا۔ 3۔ انسان کو گمراہ کرنے کے لے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کوئی تسلّط نہیں دیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے اذّیت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ سچا ہے اور شیطان کے تمام وعدے جھوٹے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ کی بات سے کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ (النساء :87) 2۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (آل عمران :9) 3۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان :33) 4۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ:40) 5۔ شیطان کا وعدہ فریب ہے۔ (بنی اسرائیل :64) 6۔ شیطان مفلسی سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ:268) 7۔ شیطان برے اعمال فیشن بنا دیتا ہے۔ (النحل :63) 8۔ لوگو! شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن سمجھو۔ ( فاطر :6)