فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا فیصلہ کردیا تو جنوں کو گھن کے کیڑے کے سوا کسی چیز نے سلیمان کی موت کا پتہ نہ دیا' جو ان کے عصا کو کھائے جارہا تھا۔ پھر جب وہ گر پڑا تو جنوں [٢٣] پر واضح ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ایسے ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔
فہم القرآن: ربط کلام : دنیا کے عظیم حکمران اور اللہ کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا واقعہ۔ دنیا میں جو شخص آیا ہے اسے بالآخر یہاں سے جانا ہے۔ بے شک وہ بادشاہ ہو یا فقیر، نیک ہو یا بد یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر بھی دنیا سے کوچ کر گئے مفسرین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر شروع کروائی جسے یہودی ہیکل سلیمانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیرجاری تھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی بتلایا گیا کہ آپ کی موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) حجرے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ طویل قیام کے لیے لاٹھی کے سہارے پر کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کرلی گئی۔ جس کے متعلق بتلایا جارہا ہے کہ جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کیا یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوگئے۔ فوت ہونے کے باوجود جنات کوا نکی خبر نہ ہوپائی وہ اسی طرح ہی تعمیر اور مشکل کاموں میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ جس لاٹھی کے سہارے پر کھڑے ہو کر عبادت کررہے تھے اسے دیمک نے چاٹ لیا اور حضرت کا جسداطہر زمین پر گر پڑا۔ اب جنوں کو پتہ چلا کہ ہمارا بادشاہ تو فوت ہوچکا ہے۔ جنات کی فطرت کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے۔ کہ اگر جنّات کو پہلے سے معلوم ہوجاتا تو وہ کبھی بھی مشکل کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ جنات بھی غیب نہیں جانتے۔ سلیمان (علیہ السلام) کا وجودِاطہرکتنا عرصہ جوں کاتوں کھڑا رہا۔ اسکے بارے میں غیر مستند حوالوں سے لکھا گیا ہے کہ انکا وجود چار مہینے یا ایک سال تک کھڑا رہا۔ واللہ اعلم (عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) الْمَدِینَۃَ وُعِکَ أَبُو بَکْرٍ وَبِلاَل (رض) قَالَت فَدَخَلْتُ عَلَیْہِمَا فَقُلْتُ یَا أَبَتِ کَیْفَ تَجِدُکَ وَیَا بلاَلُ کَیْفَ تَجِدُکَ قَالَتْ فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمَّی یَقُولُ کُلُّ امْرِءٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ وَالْمَوْتُ أَدْنَی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی وَبَاءِ الْمَدِینَۃِ] ” ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم (ﷺ) مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر اور بلال (رض) کو شدید بخار ہوگیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں ان کے ہاں گئی اور ان کی تیماداری کی۔ ابو بکر (رض) نے فرمایا کہ ہر انسان اپنے گھر میں صبح کرتا ہے اور موت جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (ﷺ) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے چوکور خط کھینچا اور ایک خط اس کے درمیان میں سے کھینچا جو چوکور خط سے باہر نکل رہا تھا اور اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے اور خط کھینچے آپ نے فرمایا درمیان والا خط انسان ہے اور چاروں طرف سے اس کی اجل اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو خط باہر نکل رہا ہے یہ اس کی حرص ہے اور چھوٹے چھوٹے جو خطوط ہیں یہ اس کی خواہشات ہیں اگر ایک سے بچے تو دوسری خواہش دامن تھام لیتی ہے۔“ مسائل: 1۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی بچ پایا اور نہ بچ پائے گا۔ 2۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ تفسیربالقرآن موت ہر ذی روح کا مقدر ہے : 1۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : 26، القصص :88) 2۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود کسی کو موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء :78) 3۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف :34) 4۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء :35) 5۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران :144) 6۔ رسول اللہ (ﷺ) بھی موت سے ہمکنار ہوئے۔ (الزمر :30)