وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ
اور سلیمان کے لئے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا۔ پہلے پہر [١٨] اس کا چلنا ایک ماہ کی مسافت ہوتا تھا اور پچھلے پہر چلنا بھی ایک ماہ کی مسافت ہوتا تھا۔ نیز ہم نے ان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ [١٩] بہا دیا تھا۔ اور بعض جن [٢٠] بھی (اس کے مسخر کردیئے) جو اپنے پروردگار کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے۔ اور ان میں سے اگر کوئی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا تو ہم اسے بھڑکتی آگ کے عذاب کا مزا چکھاتے تھے۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبوت اور اقتدار عطا فرمایا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ کے حضور یہ درخواست پیش کی۔” اے میرے رب! مجھے ایسا اقتدار عطا فرماکہ اس جیسا اقتدار میرے بعد کسی شخص کو حاصل نہ ہو۔“ [ صٓ:35] اس دعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہوا پر اختیار دیا کہ وہ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک دو مہینوں کی مسافت طے کرلیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنات کو ان کے تابع فرما دیا۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ اگر کوئی جِن حکم عدولی کرتا تو اسے آگ کا عذاب دیا جاتا۔ ہوا پر اختیار دینے کا مفہوم بیان کرتے ہوئے مفسرین نے دو طرح کی تشریح کی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ایسی تکنیک سکھلائی گئی جس کی بنیاد پر وہ ہوا پر کنٹرول کرتے تھے اس وجہ سے ان کے بحری بیڑے ہر موسم میں اس قدر تیز رفتاری سے سمندر میں چلتے کہ وہ صبح سے شام تک اتنی منزلیں عبور کرجاتے جتنا سفر ایک سبک رفتار گھوڑا مہینے میں طے کرتا ہے۔ گویا کہ موسم کی ناہمواری دن کی تپش اور رات کے اندھیرے ان کے بحری بیڑوں کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے۔ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا تخت تیار کیا تھا کہ جس پر بیٹھ کر وہ صبح و شام دو مہینوں کی مسافت طے کرجایا کرتے تھے۔ جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ضرور ایسا ہوائی جہاز تیار کیا ہوگا جسے صبح وشام اتنی مسافت عبور کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔ جہاں تک ان کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کرنے کا معاملہ ہے عین ممکن ہے کہ انہیں زمین سے معدنیات کے نکالنے کا علم اور طریقہ بھی سکھلایا گیا ہو۔ ان کے ملک میں جو معدنیات کے ذخائر نکلے ان میں تانبے کی معدنیات سرِفہرست تھی۔ تانباوہ معدنی قوت ہے جو ایٹم بم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ زمین سے تانبانکالنے اور پھر اس سے مختلف قسم کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے جنات کو ان کے تابع کردیا گیا تھا۔ اگر کوئی جِنّ اپنی ڈیوٹی سے کوتاہی کرتا تو اسے آگ کے کوڑوں سے سزا دی جاتی۔ آگ کے کوڑے انسانوں پر برسانا ہماری شریعت میں حرام قرار دیا گیا لیکن جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اس لیے انہیں آگ کے کوڑوں سے سزا دی جاتی تھی۔ ” حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے آپ قضائے حاجت کے لیے علیحدہ ہوئے۔ اچانک ہمیں ایک فاختہ اور اس کے دو بچے نظر آئے ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا فاختہ نے پھڑ پھڑ انا شروع کردیا رسول اللہ (ﷺ) واپس آئے اور آپ نے فاختہ کو پریشان دیکھ کر پوچھا کہ اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے پریشان کیا ہے اس کے بچوں کو چھوڑ دو۔ اسی طرح آپ (ﷺ) نے کچھ چیونٹیوں کو جلا ہوا دیکھ کر پوچھا کہ ان کو کس نے جلایا ہے ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جلایا ہے۔ آپ نے فرمایا آگ کا عذاب اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔“ [ رواہ ابوداؤد : باب فِی کَرَاہِیَۃِ حَرْقِ الْعَدُوِّ بالنَّار]ِ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے جنات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تانبے کی معدنیات عطا فرمائیں۔ تفسیر بالقرآن: حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خصوصیات : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو غیر معمولی بادشاہت عطا فرمائی۔ ( الانبیاء :79) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تابنے کے چشمے عطا فرمائے۔ ( سبا :12) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو صنعت وحرفت میں کمال عطا فرمایا۔ ( سبا :13) 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو فہم و فراست عطا کی۔ (الانبیاء :79) 5۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا۔ (الانبیاء :81)