الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ
ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت [١] میں (بھی) تعریف اسی کے لئے ہے اور وہ حکمت والا [٢] اور باخبر ہے
فہم القرآن: ’’الاحزاب ‘‘کے آخر میں فرمایا کہ منافقین اور مشرکین کو ان کے کیے کی ٹھیک ٹھیک سزا دینا اور ایمانداروں کی کمزوریوں کو معاف کرتے ہوئے ان پر اپنا کرم فرمانا یہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ سورۃ سبا کا آغاز اس ارشاد سے ہو رہا ہے کہ اس پر مومنوں کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ عربی زبان میں ” ال“ کا لفظ کئی معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں استغراق بھی شامل ہے۔ استغراق کا معنٰی ہے جس میں ہر چیز کا احاطہ کرلیا جائے۔ گویا کہ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ سے مراد ہے کہ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ تعریف با لواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ مفہوم یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص پھول کے حسن وجمال کی تعریف کرتا ہے تو دراصل یہ اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے کیونکہ پھول کو حسن وجمال دینے والا صرف ” اللہ“ ہے۔ اس طرح جو خوبی اور صفت مخلوق میں پائی جاتی ہے در حقیقت وہ اللہ کی ہی عطا کردہ ہے۔ اس لیے اللہ کی ذات کو کوئی مانے یا نہ مانے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر نہ صرف اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شعوری طور پر اپنے رب کو مان کر اس کی تعریف کرنے والا اجر پائے گا۔ اور جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اس کی محض عادتاً تعریف کرتا ہے وہ اجر سے محروم ہوگا۔ حمد کے لفظ میں شکر اور تعریف دونوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں الحمد کا معنٰی ہے کہ تمام تعریفات اس ” اللہ“ کے لیے ہیں جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ دنیا میں بھی تعریف اس کے لیے ہے اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف کی جائے گی۔ اس نے جو چیز بھی پیدا فرمائی اور جو بھی حکم دیا اس میں لا تعداد حکمتیں ہیں۔ وہ انسان کے ایک ایک لمحے سے واقف اور اپنی مخلوق کے تمام حالات سے ہر وقت با خبررہتا ہے۔ حمد کی فضیلت : (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ. ” حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، ” الحمدللہ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔“ [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ] مسائل: 1۔ ہر قسم کی حمدو ستائش اللہ کے لیے ہے جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ 2۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت مضمر ہوتی ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتی ہے : 1۔ تمام تعریفیں جہانوں کو پالنے والے ” رب“ کے لیے ہیں۔ (الانعام :45) 2۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرنا مومنوں کی صفت ہے۔ ( التوبۃ:112) 3۔ بجلی کی کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ ( الرعد :13) 4۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید :1) 5۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل :44) 6۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ( الشوریٰ:5)