بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ سبا کا تعارف: سورۃ سبا مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس کا نام اسکی آیت پندرہ میں موجود ہے اس کے چھ رکوع اور چون(54)آیات ہیں ۔ ربط سورۃ : سورۃ احزاب کا اختتام اس ارشاد پر ہوا ہے کہ اللہ تعالی منافق مردوں اور منافق عورتوں ،مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے گا ،مومن مردوں اور مومن عورتوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف کرنے والا ۔ نہایت مہربان ہے ۔ سورۃ سبا کا آغاز ’’ الحمد للہ‘‘ سے ہو رہا ہے جس میں مومنوں کو کھلا اشارہ دیا ہے کہ گناہوں کی معافی پر انہیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اس لیے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالی کی ملک ہے اور ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہے کیونکہ وہ حکیم اور خبیر ہے ۔ اللہ تعالی نے انسان کو یہ حقیقت بتانے کے بعد فرمایا ہے کہ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہورہا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو آسمان کی طرف چڑھتا ہے اور جو کچھ اس سے اترتا ہے ،زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے اور وہ ہر چیز کی حرکات وسکنات سے آگاہ ہوتا ہے ، سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجودلوگوں کو معاف کرتا اور ان پر مہربانی فرماتا ہے۔ اس کی مہربانی سے حقیقی اور دائمی فائدہ اٹھانے کی بجائے لوگ کفر کرتے ہیں اور کفار کہتے ہیں کہ قیامت قائم نہیں ہوگی اور نہ ہی ہم نے کسی کے سامنے پیش ہونا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد مٹی کے ساتھ مٹی ہو جا تا ہے اور پھر اسے بنانا اور اٹھانا ناممکن ہے ۔ حالانکہ قیامت کا قائم ہونالازم ہے تا کہ اللہ تعالی نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی جزادے اور برے لوگوں کو ان کی برائی کی سزا دے یہ بیان کرنے کے بعد دو عظیم پیغمبروں کے اقتدار اور اختیار کا ذکر کیا ہے جنہیں اللہ تعالی نے بڑی مضبوط حکومت عطافرمائی تھی جس پر انہوں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا یہاں تک سلیمان علیہ السلام موت کے وقت بھی اپنے رب کے حضور دست بستہ کھڑے تھے کہ اجل نے انہیں آلیا ، پھر قوم سبا کی خوشحالی اور ترقی کا ذکر فر مایالیکن قوم سبا اپنے رب کی شکر گزار ہونے کی بجائے ناشکری ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں ان کی ہر چیز تباہ کر دی گئی اور اللہ تعالی کی پکڑ سے انہیں کوئی نہ بچا سکا۔ اللہ تعالی نے قوم سبا کے ذکر کے بعد مشرکوں کو چیلنج دیا ہے کہ جنہیں تم حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہو وہ زمین و آسمانوں میں ایک ذرہ کے مالک نہیں اور نہ ہی زمین وآسمانوں کی تخلیق میں ان کی شراکت تھی اور نہ ہے ۔ ان کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر اس کے حضور کسی کی سفارش بھی نہیں کر سکتے ان کا اپنا یہ حال ہوگا کہ وہ خوف کے مارے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ اللہ تعالی نے ہمارے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے؟ اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود مشرک عقید ہ توحید سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو ان سے پوچھو کہ تمہارے شریکوں نے اب تک کیا پیدا کیا ہے؟ جولوگ قیامت پر یقین نہیں کرتے ان کا یہ بھی حال ہوگا کہ وہ قیامت کے دن ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے مگر ان کا آپس میں جھگڑ نا انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اللہ تعالی نہ صرف عابد اور معبود، چھوٹے اور بڑے مجرم کو سوال کرے گا بلکہ ملائکہ سے بھی استفسار فرمائے گا کیا یہی لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے؟ ملائکہ عرض پیش کریں گے۔ ہمارے رب! آپ تو ہر قسم کے شرک سے پاک ہیں درحقیقت یہ لوگ ہمارا نام لے کر جنات کی عبادت کرتے تھے اور یہ جنات کو ہی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے۔ سورت کے آخر میں نبی (ﷺ) کو حکم ہوا کہ اپنے مخاطبین کو کھلے الفاظ میں فرمائیں کہ تم اکیلے اکیلے یا آپس میں مل کر سوچو اور بتاؤ کہ کیا مجھے کسی قسم کا جنون ہوا ہے؟ میں توتمہیں شد ید عذاب سے ڈرانے والا ہوں ایک مرتبہ پھر سوچو کہ کیا میں اس دعوت پر تم سے کسی قسم کا مطالبہ کرتا ہوں جس بنا پر تم میری مخالفت کیے جار ہے ہو۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے اور وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے ، انہیں کھلے الفاظ میں بتلائیں کہ اللہ تعالی باطل پر حق کو غالب کرتا ہے اور وہ ہر صورت حق کو غالب فرمائے گا ۔ اگر اس کے باوجود نہیں مانتے تو وقت آئے گا آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن میرایمان لانے کا اظہار کریں گے مگراس وقت انہیں ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ بھاگنے کی کوشش کر یں گے لیکن فی الفور گرفتار کر لیے جائیں گے وہ اپنے ایمان کا اظہار کر یں گے اور یہ توقع لیے ہوئے ہوں گے شاید انہیں جہنم سے نجات مل جائے لیکن ان کے اور ان کی تمناؤں کے درمیان جہنم کی آگ حائل کر دی جائے گی جس طرح ان سے پہلے جہنمیوں کے درمیان حائل ہو چکی ہوگی کیونکہ یہ لوگ دنیا میں ایمان لانے کے بارے میں شرک کا شکار تھے۔