يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں [١٠٧] نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی۔ پھر اللہ نے موسیٰ کو ان کی بنائی ہوئی باتوں سے بری کردیا اور وہ اللہ کے ہاں بڑی عزت [١٠٨] والے تھے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت 53سے ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ اے مسلمانو! نبی اکرم (ﷺ) کے ہاں بن بلائے مہمان نہ بنا کرو اس طرح مہمان بننے سے نبی اکرم (ﷺ) کو تکلیف ہوتی ہے۔ اب اس خطاب کا اختتام بھی مومنوں کو آداب سکھلاتے ہوئے کیا جارہا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو ! کہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں جیسا کردار اختیار نہ کرنا۔ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اذّیت پہنچائی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کرم فرمایا اسے ان کی یا وہ گوئی سے بچا لیا۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بڑا وجیہ پیدا فرمایا تھا وجیہ کا معنٰی ہے جمال اور جلال رکھنے والا اور بڑی عزت کا مالک۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَ کَانَ مُوْسٰی یَغْتَسِلُ وَحْدَہٗ فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَایَمْنَعُ مُوْسٰی أَنْ یَّغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّہٗ آدَرُ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِیْ إِثْرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِیْ یَاحَجَرُ حَتّٰی نَظَرَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَہٗ فَطَفِقَ بالْحَجَرِ ضَرْبًا) [ رواہ البخاری : کتاب الغسل، باب من اغتسل عریاناوحدہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے ہی غسل کرتے تھے۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) اس وجہ سے غسل نہیں کرتے کہ ان کے خصیتین میں بیماری ہے۔ ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کررہے تھے تو پتھر کپڑے لے کر چل نکلا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے بھاگے کہ اے پتھر ! میرے کپڑے دے دے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی تکلیف نہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے پکڑ کر پتھر کو مارنا شروع کردیا۔“ مسلمانوں کو حکم : ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَقُولُوا راعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ﴾[ البقرۃ:104] ” اے ایمان والو! تم ” رَاعِنَا“ نہ کہو بلکہ ” اُنْظُرْنَا“ کہو اور سنو ! کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔“ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ) [ رواہ الطبرانی فی الصغیر صفحہ 236جلد1] ” رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے مارے جائیں۔“ (تفصیل جاننے کے لیے البقرۃ آیت 104کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو لوگوں کی ایذا سے محفوظ فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت کا اہتمام کیا۔ 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہی صاحب جمال اور کمال پیغمبر تھے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مرتبہ ومقام کی ایک جھلک : 1۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ:30) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النّساء :125) 3۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص :35) 4۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں خلیفہ بنایا۔ (ص :26) 5۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص :20) 6۔ یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرما یا۔ ( یو سف :83) 7۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف :31) 8۔ ادریس (علیہ السلام) کو اللہ نے مقا مِ علیا سے سرفراز کیا۔ (مریم :57) 9۔ نبی (ﷺ) رحمۃ العالمین ہیں۔ (الانبیاء :107) 10۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف بخشا۔ (طٰہٰ: 12تا14) 11۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا کلمہ قرار دیا۔ (لنّساء :171)