يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ ۚ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا
لوگ آپ سے قیامت کے متعلق [١٠٤] پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ’’اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور آپ کو کیا خبر، شاید وہ قریب ہی آپہنچی ہو‘‘
فہم القرآن: (آیت63سے65) ربط کلام : جن لوگوں کے دلوں میں منافقت اور بے حیائی کی بیماری ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ قیامت پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ اگر ان کا قیامت پر یقین ہو تو وہ بے حیائی اور منافقت سے باز آجائیں۔ اگر منافقین کا قیامت پر سچا ایمان ہو تو وہ ایسی حرکات سے اجتناب کریں۔ ان کا قیامت پر یقین نہیں ہے اس لیے یہ لوگ معاشرے میں بے حیائی پھیلاتے ہیں رسول معظم (ﷺ) سے بار بار سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی۔ اس پر آپ کو حکم ہوا کہ دلائل کے تکرار کی بجائے آپ اس موقعہ پر بس اتنا فرمائیں کہ قیامت کے برپا ہونے کا دن صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ انہیں یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ تمہیں کیا خبر ! کہ قیامت قریب ہی آپہنچی ہو۔ جس طرح منافقوں اور بے حیاؤں پر دنیا میں اللہ کی لعنت برستی ہے اسی طرح ہی ان پر قیامت کے دن پھٹکار ہوگی اور ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں نہ ان کے دوست کام آئیں گے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ قیامت قریب آچکی ہے یہ زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی : ﴿اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَ ھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْہُ وَ ھُمْ یَلْعَبُوْنَ﴾[ الانبیاء : 1، 2] ” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو نصیحت آتی ہے اس کو مشکل سے سنتے ہیں اور کھیل کود میں پڑے رہتے ہیں۔“ ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي لاَ يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ﴾(الاعراف:187) ” آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا وہ آسمانوں اور زمین پربھاری ہوگئی ہے اور تم پر اچانک آئے گی۔“ جہنم کی آگ : ﴿فِي عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ﴾( الھمزۃ:9)لمبے لمبے ستونوں میں ۔ ﴿كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ ﴾(المرسلات:33) گویا کہ وہ طاقت ور اونٹ ہیں ۔‘‘ مسائل: 1۔ منافقین کو قیامت کے قائم ہونے پر یقین نہیں آتا۔ 2۔ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ 3۔ قیامت کے منکروں پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ 4۔ منکرین قیامت کے لیے جہنم کی آگ بھڑکائی جا چکی ہے۔ 5۔ جہنم میں ان کا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے برپا ہونے کے دلائل : 1۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن :16) 2۔ قیامت کے دن اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان :26) 3۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ لوٹائے گا تاکہ نیک وبد کو جزا وسزا مل سکے۔ ( یونس :4) 4۔ اللہ تعالیٰ کا قیامت قائم کرنے کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل :38) 5۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت ہی سخت ہوگا۔ (الحج :1) 6۔ قیامت کے دن اللہ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج :56) 7۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار :19)