مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
جو بات اللہ نے نبی کے لئے مقرر کردی ہے اس میں نبی پر کوئی تنگی نہیں۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو ان نبیوں میں بھی جاری رہی جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک طے شدہ فیصلہ [٦٢] ہوتا ہے۔
فہم القرآن: (آیت38سے39) ربط کلام : پہلے فرمان کا تتمہّ۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم تعمیل کے لیے ہوتا ہے جس بنا پر سب سے پہلے اس پر نبی عمل کرتا ہے لہٰذا کسی نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس کرے۔ اللہ تعالیٰ کا پہلے انبیاء کے بارے میں بھی یہی طر یقہ رہا ہے۔ اس کا حکم قطعی ہوا کرتا ہے یعنی اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں پس وپیش کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے۔ یہی پیغمبروں کی شان ہے کہ ان پر جو احکام نازل ہوئے انہوں نے لوگوں کی ملامت اور طعن و تشنیع کی پروا کیے بغیر انہیں من و عن اپنی امتوں تک پہنچایا اور اس پر عمل کر کے دکھلایا۔ اے نبی (ﷺ) آپ کو بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔ یہاں تک لوگوں کی مخالفت کا تعلق ہے آپ اس سے بے پروا ہوجائیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہر حال میں کافی ہوگا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر آپ (ﷺ) کو یوں مخا طب فرمایا گیا ہے۔ ” اے پیغمبر! جو آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے لوگوں تک پہنچا دیجیے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تو نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا ” اللہ“ ہی تجھے لوگوں کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا۔ وہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ ( المائدہ : آیت67) حضرت حسن بصری کی والدہ حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کی کنیز تھیں۔ اس بدولت حسن بصری نے حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کے ہاں پرورش پائی وہ اس آیت کی تصریح میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے بالواسطہ امت محمدیہ کے علماء سے بھی لیا ہے کہ وہ حق کو چھپانے کی بجائے اسے ہر حال میں بیان کرتے رہیں۔ حضرت حسن بصری (رض) کا اپنا کردار یہ تھا کہ وہ حجاج بن یوسف پر سر عام تنقید کرتے۔ ایک دن حجاج نے انہیں بلا کر تلوار لہراتے ہوئے پوچھاکہ آپ میرے بارے میں یہ یہ باتیں کرتے ہیں؟ حضرت حسن بصری نے وہی باتیں حجاج کے رو برو کہتے ہوئے فرمایا کہ ہاں جب تک تم ان جرائم سے باز نہیں آؤ گے میں تمہیں ٹوکتا رہوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے مذکورہ آیات کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے سچ بولنے کا وعدہ لیا ہے جس کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے۔ (تفسیررازی) مسائل: 1۔” اللہ ” کے پیغمبر صرف ” اللہ“ ہی سے ڈرتے ہیں اور لوگوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ 1۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3) 2۔ احد کے غازیوں نے کہا ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور وہی ہمیں کافی ہے۔ (آل عمران :173) 3۔ میرے بندوں پر شیطان کی کوئی دلیل کار گر نہ ہوگی اور تیرا رب تجھے کافی ہے۔ (بنی اسرائیل :65) 4۔ اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے، اللہ کافی ہے ولی اور مددگار۔ (النساء :45) 5۔ ان سے اعراض کیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (النساء :81) 6۔ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ کارساز کافی ہے۔ (النساء :171) 7۔ اللہ پر توکل کیجیے، وہی کارساز کافی ہے۔ (الاحزاب :3)