وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اور جب آپ اس شخص [٥٦] کو، جس پر اللہ نے بھی احسان کیا تھا اور آپ نے بھی، یہ کہہ رہے تھے کہ : ’’اپنی بیوی کو اپنے [٥٧] پاس ہی رکھو اور اللہ سے ڈرو‘‘ تو اس وقت آپ ایسی بات اپنے دل میں چھپا [٥٨] رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب [٥٩] زید اس عورت سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے آپ [٦٠] سے اس (عورت) کا نکاح کردیا، تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم ہو کر رہنے والا [٦١] ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : پہلی آیت میں یہ ارشاد ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔ اب بتلایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے تابع رہ کر میاں اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ جس کی مثال حضرت زینب اور حضرت زید کے حوالے سے پیش کی گئی ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کی آیت پانچ کی تشریح میں عرض کیا گیا ہے کہ حضرت زید بن حارثہ نبی کریم (ﷺ) کے غلام تھے جسے آپ نے آزاد فرما کر اپنا متبنّٰی بنا لیا تھا۔ زید بن حارثہ کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا جب آٹھ سال کے ہوئے تو ان کی والدہ انہیں ننھال لے گئی وہاں دشمن قبیلے نے ان کے ننھال پر حملہ کردیا۔ دشمن دوسرے آدمیوں کے ساتھ زید بن حارثہ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے طائف کے قریب عکاظ کی منڈی میں اسے فروخت کردیا۔ خریدنے والے حضرت خدیجہ (رض) کے بھتیجے حکیم بن حزام (رض) تھے انہوں نے زید کو اپنی پھوپھی خدیجہ کو دے دیا حضرت خدیجہ (رض) کا نکاح نبی اکرم (ﷺ) سے ہوا تو انہوں نے زید کو آپ کی خدمت میں پیش کیا اس طرح زید (رض) کے بخت جاگ اٹھے اور زید اس ہستی کے غلام ٹھہرے جس کی غلامی پر آزادی بھی ناز کرتی ہے اور جس کی غلامی پر پوری دنیا بھی قربان کر دینی چاہیے۔ زید (رض) کی عمر تقریباً پندرہ سال کی ہوچکی تھی جب اس کے والد اور چچا کو معلوم ہوا کہ ہمارا بچہ مکہ میں ہے۔ وہ نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آئے اس وقت تک آپ ختم نبوت کے تاج سے سرفراز نہیں ہوئے تھے گویا کہ آپ محمد بن عبداللہ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ زید کے والد اور چچا نے آپ سے پورا ماجرہ عرض کیا اور نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ اسکی والدہ اس کی جدائی میں نڈھال ہوچکی ہے آپ ہم سے جو قیمت لینا چاہتے ہیں وصول کرلیں اور ہمارا بچہ ہمارے حوالے کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ زید کو بلا کر پوچھتا ہوں اگر وہ آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میں آپ سے اس کے عوض ایک دمڑی بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ زید کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ زید ان بزرگوں کو جانتے ہو ؟ زید نے عرض کی کہ ہاں یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ زید یہ تجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں اگر تم جانا چاہتے ہو تو میں تجھے خوشی سے اجازت دیتا ہوں۔ زید نے ایک مرتبہ اپنے باپ اور چچا کو دیکھا اور پھر نبی کریم (ﷺ) کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالی اور عرض کی کہ آقا میں آپ کا دامن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتا۔ نہ معلوم زید کے والد اور چچا نے کس کس انداز میں ان کو سمجھایاہو گا جس کا اندازہ کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ زید کی وفا شعاری اور فدا کاری کی وجہ سے نبی کریم (ﷺ) نے حرم مکہ میں جا کر زید کی نہ صرف آزادی کا اعلان کیا بلکہ قریش کے معززین کے سامنے یہ بھی اعلان فرمایا کہ گواہ رہنا زید میرا بیٹا ہے۔ اس کے بعد حضرت زید کو زید بن محمد کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ یہ واقعہ نبوت سے تقریباً پندرہ سال پہلے کا ہے جب آپ (ﷺ) کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا تو اس وقت حضرت زید (رض) کی عمر تیس سال تھی۔ نبوت کی تصدیق کرنے والوں میں زید (رض) کا چوتھا نام ہے۔ پہلی حضرت خدیجہ (رض) دوسرے حضرت ابو بکر (رض) تیسرے حضرت علی (رض) ہیں۔ معاشرے میں اونچ نیچ ختم کرنے کے لیے نبوت کے چوتھے سال نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب (رض) کا نکاح حضرت زید (رض) سے کردیا حق مہر بھی اپنی طرف سے ادا فرمایا اور کچھ گھریلو سامان بھی دیا۔ حضرت زینب (رض) اور جناب زید (رض) کے درمیان وہ ہم آہنگی اور یگانگت پیدا نہ ہوسکی جو ازواجی زندگی کا جزوِلازم ہے چناچہ حضرت زید (رض) نے زینب (رض) کو طلاق دے دی جس کے بارے میں نبی اکرم (ﷺ) کو اشارہ ہوچکا تھا کہ جب زید (رض) حضرت زینب (رض) کو طلاق دے دے اور زینب (رض) اپنی عدت پوری کرلے تو آپ نے اس سے نکاح کرنا ہوگا۔ جس کے بارے ا رشاد ہوا کہ ہم نے اس سے آپ کا نکاح کردیا تاکہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی قدغن نہ رہے۔ وضاحت کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ تمہارے منہ بولے لڑکے تمہارے حقیقی بیٹے بن سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی بیویاں تمہاری بہو ہو سکتی ہیں۔ حضرت زینب (رض) سے نکاح کرنے سے پہلے آپ (ﷺ) اس بات سے خوف زدہ تھے کہ اگر میں نے زینب (رض) سے نکاح کرلیا تو منافق اور یہود و نصارٰی طوفان بد تمیزی برپا کردیں گے کہ محمد (ﷺ) نے اپنی بہو کو اپنے نکاح میں لے لیا ہے۔ اس کے متعلق ارشاد ہوا کہ آپ کو حق بات پر عمل کرنے میں صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وہی حقدار ہے کہ بندہ اسی سے ڈرتا رہے۔ جہاں تک حضرت زید (رض) پر اللہ تعالیٰ کے انعام کا تعلق ہے اس سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے کہ جو غلام در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل خاص سے سرور دو عالم کی چوکھٹ پر خادم ہونے کا شرف بخشا اور نبی کے خاندان کا داماد بنایا۔ مسائل: 1۔ اچھے خاندان سے ازواجی تعلق قائم ہونا اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہوتا ہے۔ 2۔ حق کے بارے میں آدمی کو لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ 3۔ متبنّٰی کی بہو سے نکاح کرنا جائز ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: آدمی کو صرف ” اللہ تعالیٰ“ سے ڈرنا چاہیے : 1۔ اے عقل مندو اللہ سے ڈر جاؤ۔ (الطلاق :10) 2۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ:100) 3۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ (الاحزاب :70) 4۔ اے لوگو اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا۔ (النساء :1) 5۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات :10) 6۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران :102) 7۔ اللہ سے ڈرو اور اطاعت کرو۔ (التغابن :16) 8۔اور تم صرف مجھ هی سے ڈرو۔(البقرہ:40)