إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
یقیناً جو مرد اور جو عورتیں مسلمان ہیں، مومن ہیں، فرمانبردار ہیں، سچ بولنے والے ہیں، صبر کرنے والے ہیں، فروتنی کرنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے ہیں، ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے بخشش [٥٤] اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کو یاد کرنے اور اس کی نازل کردہ حکمت کا تقاضا ہے کہ مسلمان مرد اور خواتین میں درج ذیل اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔ جن حضرات میں یہ اوصاف ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا اور انہیں اجر عظیم عطا کرے گا۔ اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مفسّرین نے لکھا ہے کہ امّہات المؤمنین میں سے حضرت امّ سلمہ (رض) نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! قرآن مجید میں بار بار مردوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے عورتوں کو مخاطب کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مومن مردوں اور عورتوں کو نہ صرف یکساں طور پر مخاطب کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک سچے اور پکے مسلمان مرد اور عورت کے کردار کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ان اوصاف کا مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، امیر ہو یا غریب، عربی ہو یا عجمی، گورا ہو یا کالا، حکمران ہو یا محکوم جس میں بھی یہ اوصاف ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرمائے گا اور اسے اجر عظیم سے نوازے گا۔ 1۔مسلمان : اسلام کا معنٰی سلامتی اور تابعداری ہے اسلام کا جامع تصور۔ ” ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے رب نے فرمایا کہ فرمانبردار ہوجا۔ اس نے عرض کی کہ میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا ہے۔ (البقرۃ:131) ابراہیم اور یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرما لیا ہے تمہیں موت اسلام کی حالت میں آنی چاہیے۔“ (البقرہ :132) 2 ۔مومن : مومن کا معنٰی ہے ایمان دار کچھ اہل علم نے مسلم اور مومن کے الفاظ کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلم اور مومن کے درمیان درجہ بندی کے لحاظ سے بڑا فرق ہے۔ مسلمان وہ ہے جو اسلام کے ظاہری ارکان پر واجبی طور پر عمل کرتا ہے۔ مومن وہ ہے جو ارکان اسلام پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک تڑپ اور لگن کے ساتھ نیکی کے معاملات میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کو شش کرتا ہے۔ مومن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی سے بھی محروم نہ رہے۔ گویا کہ وہ اسلام کے ہر پہلو پر پوری طرح عمل کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے عام مسلمانوں کو یوں خطاب فرمایا۔ ” دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں۔ اے پیغمبر! انہیں فرما دیں کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے۔ ہاں یہ کہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا کیونکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایمان دار تو وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لاتے ہیں پھر اس میں کوئی شک نہیں کرتے اور اپنے مالوں اور نفسوں کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں۔“ (الحجرات : آیت 14۔15) 3 ۔قٰانِتِ: مرد کے لیے قٰانِتِین اور عورت کے لیے قٰانِتٰتِ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جس سے مراد وہ شخص اور عورت ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ قولاً اور فعلاً اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرتے ہوئے طبیعت میں سکون محسوس کرے۔ نماز کے بارے میں بالخصوص یہ حکم دیا گیا ہے ﴿وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِین﴾ [ البقرۃ:238] ” اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہوا کرو۔“ 4 ۔اَلصَّادِقْ: ہر حال میں ” اَلصِّدْقَ“ اختیار کرنے والے کو الصَّادِقْ کہا جاتا ہے یعنی ایسا مسلمان جو اپنے قول اور فعل کے ساتھ اسلام کی صداقت کا ترجمان ہو۔ ایک مسلمان کو قولاً اور فعلاً اسلام کا ترجمان بنتے ہوئے اس بات کا بھی التزام کرنے کا حکم ہے کہ وہ ہمیشہ سچے لوگوں کا ساتھ دے۔ ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰادِقِیْنَ﴾[ التوبہ :119] ” اے مسلمانو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کا ساتھ دیا کرو۔“ 5 ۔صَابِرْ: صبر بے بسی اور بے کسی کا نام نہیں۔ صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں جرات‘ بہادری دکھانا بھی صبر میں شامل ہے۔ صابر کو آخرت میں بغیرحساب و کتاب کے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ﴾[ البقرۃ:152] ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔“ 6۔ خَاشِعِیْنَ: ” خَاشِعِیْنَ“ ” خَاشِعٌ“ کی جمع ہے۔ مسلمان کی کوئی عبادت ایسی نہیں جس میں خشیت الٰہی نہ پائی جائے۔ خشیت دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے رب کی نافرمانی اور اس کی گرفت سے ڈرتا رہتا ہے۔ جس میں یہ صفت ہوگی وہ مسلمان ہر وقت اپنے اخلاق اور اعمال کا محاسبہ کرے گا۔ ان لوگوں کی یوں تعریف کی گئی ہے۔ ﴿الَّذِینَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ﴾[ المومنون :2] ” مومن اپنی نماز میں خشیت اختیار کرتے ہیں۔“ 7۔ مُتَصَدِّقْ: ” مُتَصَدِّقْ“ حقیقت میں وہ شخص ہوتا ہے جو عسر اور یسر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے کیونکہ صحیح معنوں میں مسلمان وہ ہے جو اپنے سے کمزور مسلمان کے ساتھ تعاون کرئے۔ قرآن مجید نے اس بات کو متقین کی ایک صفت کے طور پر ہی نہیں لیا بلکہ اسے ایمان کی مبادیات میں شامل کیا ہے۔ ﴿الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾[ آل عمران :134] ” متقین عسر، یُسر میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتا ہے۔“ ﴿الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ [ البقرۃ:3] ” جو لوگ غیب پر ایمان لاتے‘ نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ 8 ۔اَلصَّوْمْ: ” اَلصَّوْم“ کا شرعی معنٰی سحری سے لے کر مغرب تک روزہ رکھنا ہے۔ روزہ اس بات کا بالفعل احساس دلاتا ہے کہ بھوک اور تنگ دستی کی سختیاں غریب کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں۔ روزہ سے آدمی کے گناہ معاف ہونے کے ساتھ دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ (يقولُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ: الصَّوْمُ لي وأنا أجْزِي به، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وأَكْلَهُ وشُرْبَهُ مِن أجْلِي، والصَّوْمُ جُنَّةٌ، ولِلصَّائِمِ فَرْحَتانِ: فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ، وفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ، ولَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِن رِيحِ المِسْكِ) نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ”اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ روزہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ بندہ اپنی شہوت، کھانا پینا میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے اور روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی اس وقت جب وہ اپنے رب سے ملتا ہے اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک عنبر کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔“ 9 ۔عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والے : قرآن مجید میں ایسے احکام نازل ہوئے ہیں۔ اگر مسلمان ان کی پاسداری کریں تو مسلم معاشرہ میں ہر کسی کی عزت وعفت محفوظ رہ سکتی ہے۔ تفصیل میں جانے کی بجائے یہاں صرف دو حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔ جس سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسلام کس طرح لوگوں کی عفت کی حفاظت کرتا ہے۔ ” اے پیغمبر (ﷺ) ! مومنوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے اللہ تعالیٰ کو ان کے سب کاموں کی خبر ہے۔ اے پیغمبر مومن عورتوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچاتے رہیں اور اپنی سج دھج کو ظاہر نہ کیا کریں۔“ (النور : 30، 31) ” زنا کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ یہ برائی اور بہت برا راستہ ہے۔ (بنی اسرائیل :32) ” سہل بن سعد (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب حِفْظِ اللِّسَانِ] 10۔ الذَّاکِرِیْن : ” الذّٰکِرِیْنَ وَّ الذّٰکِرٰتِ“ سے مراد مخصوص لوگ نہیں جو مجالس پڑھنے کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔” الذّٰکِرِیْنَ وَّ الذّٰکِرٰ تِ“ سے مراد وہ خوش قسمت اور با نصیب لوگ ہیں جوہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں۔ ذکر کے بارے میں فہم القرآن: جلد 1آیت 152میں قدرے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ذکر سے مراد اللہ کا نام، صفات اور ذات کا ذکر کرنا اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے ذکر کے تصور کو اس قدر وسعت سے بیان فرمایا ہے۔ (اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَاف بالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامَۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب المناسک‘ باب فی الرمل(ضعیف)] ” یقینا! بیت اللہ کا طواف‘ صفا ومروہ کی سعی اور شیاطین کو کنکریاں مارنا ” اللہ“ کا ذکر بلند کرنے کے لیے ہیں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ)[ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِیْ حَالِ۔۔] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) ہر حال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الَّذِیْ یذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا یذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیتِ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے ” رب“ کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی ہے۔“ مسائل: 1۔ صالح اعمال کے حوالے سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے صالح مردوں اور عورتوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والا اور اجرِعظیم عطا کرنے والا ہے : 1۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے معاف کرے گا۔ (الفتح :14) 2۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک اللہ معاف کرتا اور رحم فرماتا ہے۔ (التوبۃ:99) 3۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمھیں معاف کر دے وہ غفور الرّحیم ہے۔ (النور :22) 4۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان :70) 5۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرحیم ہے۔ (النحل :119) 6۔ اللہ جلد پکڑنے والا اور غفور الرحیم ہے۔ (الانعام :165) 7۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (الزمر :53) 8۔ ہم ان کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (النحل :97) 9۔ اللہ ان کو ان کے اعمال سے بہتر صلہ عطا فرمائے گا۔ ( الزمر :35)