وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا
اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار بن جائے اور نیک عمل کرے تو ہم اسے اجر بھی دگنا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے عزت کی روزی [٤٤] تیار کر رکھی ہے
فہم القرآن: ربط کلام : ازواج مطہرات کا مقام اور اجروثواب۔ اکیسویں پارے کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ اے نبی کی ازواج ! اگر تم میں سے کسی نے بے حیائی کا ارتکاب کیا تو اسے دوگنی سزا دی جائے گی ہاں جو تم میں ” اللہ“ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی۔ اسے دوہرا ثواب اور بہترین رزق دیا جائے گا۔ کیونکہ تمہارا مقام عام مسلمان عورتوں جیسا نہیں بلکہ تم ان سے ممتاز مقام کی حامل ہو۔ کیونکہ تمہارے گھروں میں ” اللہ“ کی آیات کا نزول ہوتا ہے اور اس کا رسول شب وروز تمہارے گھروں میں تشریف فرما ہوتا ہے۔ لہٰذا تمہیں ہر حال میں ” اللہ“ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔ دین اسلام کی اشاعت اور ترقی پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح دکھائی دیتی ہے کہ دین کا بیشتر حصہ بالخصوص ازواجی اور گھریلو زندگی کے مسائل: کی اشاعت اور ترویج امہات المؤمنین کے ذریعے ہی عمل میں آئی ہے۔ اسی لیے نبی کریم (ﷺ) کو چار بیویوں کی قید سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ ازواج مطہرات کو معلوم تھا کہ ہمارے فرائض مسلمان خواتین سے بہت زیادہ ہیں اس لیے نبی (ﷺ) کی ہر بیوی نے اپنے خاندان میں تبلیغ دین کے لیے محنت فرمائی اور اپنے عزیز واقرباء کو آپ (ﷺ) کی پاکیزہ زندگی سے آگاہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں ان کے خاندان کے لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس طرح نبی کریم (ﷺ) کی ازواجی زندگی اسلام کی ہمہ جہت ترقی میں بہترین ذریعہ ثابت ہوئی۔ قرآن مجید نے امہات المؤمنین کے حوالے سے یہ اصول واضح فرمایا ہے کہ جس شخص کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے اگر وہ دین کی اشاعت میں محنت کرے گا تو اس کا اجر بھی دوگنا ہوگا۔ اسی اصول کے پیش نظر نبی معظم (ﷺ) نے ہر قل کو یہ تحریر فرمایا تھا۔ (فَإِنِّی أَدْعُوکَ بِدِعَایَۃِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ إِثْمُ الأَرِیسِیِّینَ) [ رواہ البخاری : باب دُعَاء النَّبِیِّ (ﷺ) إِلَی الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّۃِ] ” میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرلے تو سلامت رہے گا اور اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطاکرے گا اگر تو نے اعراض کیا تو تیری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔“ (عَنْ جَرِیرٍ (رض) قَالَ کُنَّا فِی صَدْرِ النَّھَارِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیءٌ) [ رواہ مسلم : باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ او کلمۃ طیبۃ وانہا حجاب من النار] حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم دن کے پہلے پہررسول کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے اسلام میں نیکی کی ابتدا کی جب تک لوگ اس پر عمل کرتے رہیں گے اسے اپنا اور دوسروں کے برابر ثواب ملتا رہے گا۔ جبکہ لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کی بنیاد رکھی اس کو اپنا بھی اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی برابر گناہ ہوتا رہے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی کو نبی مکرم (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا سرکاردو عالم (ﷺ) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اس کو آزاد کردے اور اس سے نکاح کرلے۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (ﷺ) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو دوگنا اجر عنایت فرمائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ازواج مطہرات کو رزق کریم سے سرفراز کرے گا۔ 3۔ ازواج مطہرات کا مقام اور مرتبہ امت کی خواتین سے بلند وبالا ہے۔