وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا
اور جب مومنوں نے ان لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے :'' یہ تو وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور فرمانبرداری [٣١] کو مزید بڑھا دیا۔
فہم القرآن: (آیت22سے24) ربط کلام : رسول اکرم (ﷺ) کا نمونہ پیش کرنے اور اس کی اہمیت ذکر کرنے کے بعد صحابہ کرام (رض) کا کردار پیش کیا جاتا ہے۔ ” الْمُؤْمِنُوْنَ“ سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے جنہوں نے موسم کی شدت، افراد کی قلت، انتہائی غربت، دشمن کا خوف، داخلی، خارجی مصائب اور مسائل: کے باوجود اللہ کے رسول (ﷺ) کا اس یقین کے ساتھ ساتھ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے جو بھی ہمارے ساتھ وعدہ کیا وہ سچ ثابت ہوا اور ہوگا۔ مصائب اور مسائل: نے ان کے ایمان میں کمزوری پیدا کرنے کی بجائے اضافہ ہی کیا ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مال و جان کی قربانی دے کر اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کردیا ہے جو باقی ہیں وہ اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے شہادت کا انتظار کررہے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ قول وفعل میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی کی جزا دے گا اور منافقت پر قائم رہنے والوں کو سز ادے گا اگر منافق اپنی منافقت سے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ جنگ کے دوران آپ (ﷺ) کا کردار آپ ہر حال میں سب مسلمانوں کے لیے واجب الاتباع نمونہ ہیں : جنگ کی سب سے زیادہ ذمہ داری سپہ سالار پر ہوتی ہے۔ غزوہ خندق میں مسلمانوں کے سپہ رسول معظم (ﷺ) تھے۔ دشمن کی کثرت مسلمانوں کی تعداد اور خوراک کی قلت، حالات کی سنگینی نبی (ﷺ) کے پائے ثبات میں ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہ کرسکی۔ مسلمانو! تمہارا کردار بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اور تمہیں رسول اللہ (ﷺ) کی ذات کو بطور نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جنگ میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں رسول کی ذات تمہارے لیے نمونہ ہونی چاہیے اس مختصر جملہ میں رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت اور اتباع کو تمام مسلمانوں پر لازم اور واجب قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میرا نام میرے چچا انس بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ جنگ بدر میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ حاضر نہ ہو سکے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزرتی تھی اور اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! اب اگر آپ (ﷺ) کے ساتھ حاضر ہونے کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر وہ ڈر گئے اور ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور لفظ کہنا مناسب نہ تھا۔ جب اگلے سال احد کے دن رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ حاضر ہوئے تو انہیں راستے میں سعد بن معاذ (رض) ملے۔ انہوں نے پوچھا ابو عمر کہاں جاتے ہو ؟ انس (رض) کہنے لگے۔ ” واہ میں تو احدپہاڑ کے پار جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ چنانچہ وہ بڑی جرأت سے لڑے۔ حتیٰ کہ شہید ہوگئے اور ان کے جسم پر ضربوں، نیزوں اور تیروں کے اسی (80) سے زیادہ زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضرنے کہا کہ ” میں اپنے بھائی کی نعش کو صرف اس کے پوروں سے پہچان سکی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (رواہ ترمذی : ابواب التفسیر) حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کو کس طرح بدعہدی پر آمادہ کیا : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ایسی مدد فرمائی کہ عام لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور کفار کے محاصرہ کو اٹھانے کے لیے یخ بستہ ہوا اور فرشتے بھیج دئیے۔ یہود میں اور مکہ کے اتحادیوں میں پھوٹ ڈال دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھلا اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟ یہود بنو قریظہ تھے جو مسلمانوں کے معاہد تھے۔ بنو قینقاع اور بنی نضیر کی جلا وطنی کے بعد مدینہ میں یہود کا یہی قبیلہ باقی رہ گیا تھا۔ کیونکہ یہ قبیلہ دوسروں کی نسبت قدرے شریف اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والا تھا۔ جب بنونضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کردیا گیا اور جنگ احزاب کی تیاریاں شروع ہوگئیں تو بنو نضیر کا رئیس حیی بن اخطب رات کی تاریکیوں میں بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ کعب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حیی مجھے مسلمانوں سے عہد شکنی پر آمادہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ لہٰذا اس نے دروازہ ہی نہ کھولا۔ حیی نے اس سے کچھ چکنی چپڑی باتیں کیں تو آخر اس نے دروازہ کھول دیا۔ حیی کہنے لگا کعب میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھتا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدوپیمان کیا ہے کہ وہ محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کا صفایا کیے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے۔ اس کے جواب میں جو کچھ کعب نے کہا وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے کہا حیی واللہ تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے۔ تم پر افسوس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں نے محمد (ﷺ) میں صدق وصفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ ( ابن ہشام) مگر حیی نے کعب کو سبز باغ دکھا دکھا کر بالآخر بدعہدی پر مجبور کر ہی لیا وہ کہنے لگا اگر قریش محمد (ﷺ) کا خاتمہ کیے بغیر ہی واپس چلے گئے تو میں بھی تمہارے ساتھ قلعہ بند ہوجاؤں گا اور واپس نہیں جاؤں گا پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا ہوگا۔ اس شرط پر کعب بھی اتحادیوں میں شامل ہوگیا۔ یہود کا انجام اور ان کا سیدنا سعد بن معاذ (رض) کو حکم تسلیم کرنا : یہودیوں کے پاس وافر مقدار میں راشن موجود تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے استیصال کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں بھی تیار کر رکھی تھیں۔ مگر وقت پر کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی۔ انہوں نے صرف 25دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ ان کے حق میں جو بھی فیصلہ ان کے حلیف سعد بن معاذ کریں گے وہ انہیں منظور ہوگا۔ حالانکہ ان کے پاس قلعہ میں اس قدر راشن موجود تھا کہ اگر وہ چاہتے تو پورا سال قلعہ بند رہ کر آسانی سے گزارا کرسکتے تھے مگر ان کے ضمیر نے انہیں جلد ہی بے چین کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ بنو قریظہ کا انجام : (عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قا ل لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ علَى حُكْمِ سَعْدٍ هو ابنُ مُعَاذٍ، بَعَثَ رَسولُ اللَّه(ﷺ)مَ وكانَ قَرِيبًا منه، فَجَاءَ علَى حِمَارٍ، فَلَمَّا دَنَا قالَ رَسولُ اللَّهِ (ﷺ): قُومُوا إلى سَيِّدِكُمْ فَجَاءَ، فَجَلَسَ إلى رَسولِ اللَّهِ (ﷺ)، فَقالَ له: إنَّ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا علَى حُكْمِكَ، قالَ: فإنِّي أحْكُمُ أنْ تُقْتَلَ المُقَاتِلَةُ، وأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ، قالَ: لقَدْ حَكَمْتَ فيهم بحُكْمِ المَلِكِ)(رواہ البخاری:باب ا ذانزل العدوعلیٰ حکم رجل) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) بلایا۔ آپ وہیں قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے (کیونکہ زخمی تھے) سعد رضی اللہ عنہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ‘ جب وہ آپ کے قریب پہنچے تو آپ (ﷺ)نے فرمایا ‘ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ (اور ان کو سواری سے اتارو) آخر آپ اتر کر آپ (ﷺ)کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ ان لوگوں (بنو قریظہ کے یہودی) نے آپ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ (اس لیے آپ ان کا فیصلہ کر دیں) انہوں نے کہا کہ پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں جتنے آدمی لڑنے والے ہیں ‘ انہیں قتل کر دیا جائے ‘ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ (ﷺ)نے فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ سیدناسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جنگ احزاب میں کاری زخم لگا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہوتا ہے مسائل: 1۔ صحابہ کرام نے ہر حال میں اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے پورے کیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام (رض) اور اپنے قول وفعل میں سچے مسلمانوں کو جزائے خیر دے گا۔ 3۔ منافقت سے تائب ہونے والے کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: سچائی اور اس کی جزا : 1۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی وہی سچے ہیں۔ (الحشر :8) 2۔ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے گا۔ (الاحزاب :24) 3۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء :69) 4۔ قیامت کے دن سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا صلہ دیا جائے گا۔ (المائدۃ:119) 5۔ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے مال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (الحجرات :15) 6۔ اے ایمان والو سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ (التوبۃ:119)