قُل لَّن يَنفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِن فَرَرْتُم مِّنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ وَإِذًا لَّا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا
آپ ان سے کہئے کہ اگر تم موت اور قتل ہونے سے بھاگتے ہو تو تمہارا بھاگنا تمہیں کچھ فائدہ [٢١] نہ دے گا، اس صورت میں بھی تم تھوڑا (عرصہ) ہی فائدہ اٹھا سکو گے
فہم القرآن: (آیت16سے18) ربط کلام : منافقین کو مزید دو چیلنج۔ اس سے پہلے منافقین کو یہ وارننگ دی گئی کہ تمہاری وعدہ خلافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ تم سے ضرور بازپرس کرے گا اب ان کے بارے میں نبی (ﷺ) کو فرمایا ہے کہ ان سے فرما دیجیے اگر تم موت یامیدان جنگ میں مارے جانے سے ڈرتے ہو تو اس بھاگنے کا تمہیں معمولی فائدہ ہوگا کیونکہ بالآخر تم موت سے بچ نہیں پاؤ گے۔ انہیں یہ بھی فرمادیجیے کہ جس نقصان سے بچنے کے لیے تم جنگ سے فرار اور بدعہدی کرتے ہو اگر اللہ تعالیٰ تمہیں نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرلے تو دنیا کی کونسی طاقت تمہیں اس سے بچا سکتی ہے اگر تم پر اپنی رحمت فرمانا چاہے تو کون اس کی رحمت کو ہٹا سکتا ہے یہ لوگ نقصان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہیں پاسکتے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہے وہ مومنوں کے لیے خاص ہے۔ منافق منافقت سے توبہ کیے بغیر اللہ کی رحمت کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو خوب جانتا ہے جو مسلمانوں کو جہاد سے روکتے ہیں اور خود بھی جہاد کے لیے نہیں نکلتے۔ نبی کریم (ﷺ) کی ابن عباس کو نصیحت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (ﷺ) کے پیچھے سوار تھا آپ (ﷺ) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل: 1۔ طبعی یا غیر طبعی موت کا ایک دن مقرر ہے۔ 2۔ ” اللہ“ کی پکڑ سے کوئی طاقت بچا اور چھڑا نہیں سکتی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اپنی رحمت فرمانا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کا کوئی مددگار اور خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں : (البقرۃ:107)(الاحزاب:17)(ھود:13)(التوبۃ:74)(السجدۃ:4)(التوبۃ:40)(آل عمران:160)(الکہف:43)