وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا
جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا یہ کہہ رہے تھے کہ : اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ [١٥] کیا تھا وہ بس دھوکا ہی تھا
فہم القرآن: (آیت12سے15) ربط کلام : غزوہ احزاب میں منافقوں کا کردار۔ منافقت انسان کے دل کی بیماری ہے جس کے اثرات انسان کے اخلاق اور کردار پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں پر مشکل وقت آئے تو منافق کی منافقت ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ایسے موقعہ پر منافق کی ہمدردیاں کفار اور مشرکین کے ساتھ ہوجایا کرتی ہیں۔ غزوہ احد کے موقع پر منافقوں نے نبی اکرم (ﷺ) کا اس وقت ساتھ چھوڑا جب کفار احد کے مقام پر پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی منافقوں کی ہمدردیاں مدینہ کے یہودیوں اور اہل مکہ کے ساتھ تھیں۔ منافقوں نے دیکھا کہ دس ہزار کا لشکر مدینہ پر امڈ آیا ہے اور مسلمان اپنے بچاؤ کے لیے خندق کھودنے پر مجبور ہوگئے ہیں، مدینہ کے یہودی بھی نبی اکرم (ﷺ) سے کیے ہوئے عہد کو توڑ چکے ہیں تو منافقوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور انہیں محاذ سے واپس لانے کے لیے یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے تم سے جو فتح کا وعدہ کیا ہے وہ سراسر دھوکہ اور فراڈ ہے۔ منافق مسلمانوں کو یہ بھی کہتے کہ خندق چھوڑو اور اپنے گھروں کو واپس لوٹ چلو۔ دکھلاوے کے طور پر جو منافق نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ تھے ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ٹولیوں کی صورت میں آپ (ﷺ) کی خدمت میں درخواست کر رہے تھے کہ ہمیں میدان جنگ سے واپس جانے دیجیے۔ کیونکہ مدینہ میں ہمارے گھروں کو شدید خطرہ ہے۔ حالانکہ ان کے گھروں کو کوئی خطرہ نہیں تھا وہ صرف جنگ سے فرار چاہتے تھے یاد رہے کہ نبی معظم (ﷺ) نے مدینہ میں سب کے گھروں کی حفاظت پر کچھ لوگ مامور کر رکھے تھے۔ اس کے باوجود منافق اپنے گھر غیر محفوظ ہونے کا بہانہ بنا کر آپ سے اجازت لیتے رہے ان کے دل کی کیفیت یہ تھی کہ اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس کر ان سے تعاون چاہتی تو معمولی توقف کے بعد منافق ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تیار ہوجائے۔ ایسے لوگوں کو یہ وارننگ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بدعہدی کے بارے میں تم سے ضرور بازپرس کرے گا۔ (عن ابي هريرة، عن النبي آيَةُ المُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وإذَا وعَدَ أخْلَفَ، وإذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) [ رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (ﷺ) ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا‘ جادو کرنا‘ ناحق کسی جان کو قتل کرنا‘ سود کھانا‘ یتیم کا مال کھانا‘ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن‘ مومن‘ بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما] (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) [ رواہ احمد : مسند أنس بن مالک] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ (ﷺ) خطبہ ارشاد فرماتے تو اکثر فرماتے کہ جو امانت دار نہیں وہ ایمان دار نہیں اور جو بدعہد ہے وہ دین دار نہیں۔“ (عن ابي سعيد ، عن النبي لِكُلِّ غادِرٍ لِواءٌ يَومَ القِيامَةِ، يُرْفَعُ له بقَدْرِ غَدْرِهِ، ألا ولا غادِرَ أعْظَمُ غَدْرًا مِن أمِيرِ عامَّةٍ) [ رواہ مسلم : باب تحریم الغدر] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا، جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی بڑی نہیں ہوتی۔“ مسائل: 1۔ منافق جھوٹے بہانے بنا کر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ 2۔ منافق مسلمانوں میں انتشار اور بددلی پیدا کرتا ہے۔ 3۔ منافق وعدہ خلافی کرتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی کرنے والے کو ضرور پوچھے گا۔ تفسیر بالقرآن: عہد کو پورا کرنے کا حکم : 1۔ اللہ کے بندے وعدہ ایفاء کرتے ہیں۔ (البقرۃ:177) 2۔ اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام :152) 3۔ ایماندار اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں۔ (الرعد :20) 4۔ اللہ کے عہد کا ایفاء ضروری ہے۔ (النحل :91) 5۔ قیامت کے دن ایفائے عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسراء :34) 6۔ اے ایمان والوں عہد پورے کرو۔ (المائدہ :1) 7۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ:40)