يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں [١٤] نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔
فہم القرآن: (آیت9سے11) ربط کلام : اصولی اور بنیادی ہدایات دینے کے بعد اب اس سورۃ کے عنوان اور واقعات پرخطاب شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں کہ جس میں واقعات کو انہی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جائے جس طرح وہ رونما ہوئے ہوں۔ قرآن مجید بنیادی طور پر ہدایت کی کتاب ہے جس میں انسان کی زندگی کے بارے میں کامل اور اکمل ہدایات کا انتظام کیا گیا ہے یہی وجہ ہے قرآن کسی واقعے کو محض واقعاتی انداز میں بیان نہیں کرتا اس لیے غزوہ احزاب کا خلاصہ بیان کرنے سے پہلے بنیادی ہدایات دی گئیں اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ دشمن کے اس قدر ہمہ جہت حملہ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کامیابی عنایت فرمائی۔ یہ ” اللہ“ کا انعام تھا جس کو تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔ لہٰذا وہ وقت یاد کرو کہ جب تمہارا دشمن ہر جانب سے تم پر حملہ آور ہوچکا تھا۔ جس سے تمہاری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور کلیجے منہ کو آچکے تھے تم میں کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں مختلف قسم کے گمان کیے اور اس موقعہ پر مومنوں کو پوری طرح ہلایا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دشمن کو سخت آندھی میں پھنسایا اور ایسے لشکر کے ساتھ پسپا کیا جو تمہیں نظر نہیں آتا تھا۔ یاد رکھو کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح دیکھنے والا ہے۔ غزوہ خندق میں کفار کے لشکر کی کیفیت : حزب کی جمع احزاب ہے جو مختلف قسم کے لوگوں اور لشکر پر بولا جاتا ہے اس جنگ میں مشرکین مکہ، یہودیوں کے مختلف گروہ اور دیگر قبائل نے حصہ لیا اس لیے اسے غزوہ احزاب کہا جاتا ہے۔ مدینہ کے منافقین سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے لیکن انہوں نے دشمن کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس لشکر کی تیاری کے لیے مشرکین مکہ اور عرب کے یہودیوں نے آپس میں مل کر دیگر قبائل کو اکسایا اور اپنے ساتھ ملایا۔ اس طرح دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے رسول معظم (ﷺ) بھی حالات پرکڑی نظر رکھے ہوئے تھے اس لیے آپ نے دشمن کے حملہ آور ہونے سے پہلے مدینہ کے دفاع کا بندوبست فرما لیا۔ خندق کی کھدائی : آپ (ﷺ) نے اپنے رفقاء کرام سے مشورہ کیا کہ مدینہ کا دفاع کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی (رض) کی تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے آپ (ﷺ) نے مدینہ کی خالی جانب خندق کی کھدائی کا کام شروع کیا دس، دس آدمیوں کا گروپ بنا کر انہیں چالیس، چالیس ہاتھ خندق کھودنے پر مامور کیا۔ جو کھدائی آپ (ﷺ) کے حصہ میں آئی آپ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کی کھدائی میں مصروف ہوگئے۔ سخت ترین حالات کے باوجود صحابہ (رض) خندق کھودتے ہوئے مندرجہ ذیل شعر پڑھ رہے تھے۔ (نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلٰی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا أَبَدًا) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیْضِ عَلَی الْقِتَالِ] ” ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے موت تک محمد (ﷺ) کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی۔ جس کے جواب میں نبی اکرم (ﷺ) آخرت کی بھلائی اور دنیا کی کامیابی کی دعا دیتے۔ ( اللَّہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلاَّ عَیْشَ الآخِرَۃِ، فَاغْفِرْ لِلْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیْضِ عَلَی الْقِتَالِ] ” اے اللہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے مہاجرین اور انصار کو معاف فرما۔“ اسی دوران کئی واقعات پیش آئے جن میں سرفہرست تین واقعات ہیں : آپ (ﷺ) کا اپنے پیٹ پر پتھر باندھنا : معاشی تنگی کا حال یہ تھا کہ صحابہ کرام (رض) میں سے کئی افراد ایسے تھے جو کئی کئی دن بھوکے رہ کر خندق کی کھدائی میں مصروف تھے۔ ایک صحابی (رض) بھوک سے مجبور ہو کر رسول مکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر عرض کرتا ہے کہ بھوک کی وجہ سے اس نے اپنی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے نبی کریم (ﷺ) نے اس کے اطمینان کی خاطر اپنے پیٹ سے قمیض اٹھائی، صحابہ کرام (رض) یہ دیکھ کر حیران اور غمزدہ ہوگئے کہ سرور دو عالم (ﷺ) نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں اس کے باوجود لوگوں سے بڑھ کر خندق کی کھدائی میں مصروف ہیں۔[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِیْ مَعِیْشَۃِ أَصْحَاب النَّبِیِّ(ﷺ) (ضعیف) ] چٹان کا واقعہ : صحابہ کرام (رض) کے ایک دستہ کے حصہ میں خندق کا وہ ٹکڑا آیا جس میں ایسا پتھر آیا کہ جس کو دس صحابہ بھی مل کر نہ توڑ سکے صحابہ کرام (رض) مایوس ہو کر آپ کی خدمت میں اس صورتحال کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ اپنا کدال لے کر خندق کے اس حصہ میں اترے اور اس زور سے پے درپے تین دفعہ کدال مارا جس سے چنگاریاں نکلیں اور چٹان کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ آپ (ﷺ) کا صحابہ کرام (رض) کو خوشخبری سنانا : ’’آپ(ﷺ)نے ’’اللہ اکبر‘‘کہتے ہوئے فرمایا:مجھے ملک شام کی چابیاں دے دی گئ ہیں اور میں یہاں کھڑے ہو کر ملک شام کے سرخ محلات کواپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد آپ(ﷺ) نے پھر اللہ کا نام لیتے ہوئے پتھر پر ضرب لگائی جس سے وہ مزید ٹوٹ گیا اور آپ نے اللہ اکبر کہتے ہوئےفرمایا:مجھے ملک فارس کی کنجیاں عطا کردی گئیں ہیں اور اللہ کی قسم میں یہاں کھڑے ہو کر مدائن اور اسکے سفید محلات کا مشاہدہ کر رہا ہوں ۔اسی طرح آپ(ﷺ )نے تیسری بار اللہ کا نام لیکر ضرب لگائی اور پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا آپ(ﷺ) نے اللہ اکبر کے کلمات کہتے ہوئےفرمایا:مجھے ملک یمن کی چابیاں عنایت کردی گئی ہیں اور اللہ کی قسم میں صنعاء کے دروازوں کو یہاں کھڑے ہو کر دیکھ رہا ہوں ۔‘‘[ مسند احمد : باب حدیث البراء بن عازب(ضعیف)] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ احزاب کے موقع پر نبی اکرم (ﷺ) کی تیز آندھی اور غیر مرئی لشکر کے ساتھ مدد فرمائی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ احزاب کے موقع پر صحابہ کرام (رض) کو بڑی شدید آزمائش سے آزمایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں کامیاب فرمایا : 1۔ بدر میں مشرکین پسپا ہوئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ (آل عمران : 123تا127) 2۔ احد میں پہلے مسلمان غالب رہے۔ (آل عمران :152) 3۔ 8ہجری کو اہل مکہ مغلوب ہوئے اور مسلمان کامیاب ہوئے۔ (الفتح :1) 4۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست خوردہ ہوئے اور مسلمان امن میں رہے۔ (التوبۃ:26) 5۔ جنگ خندق میں اہل مکہ اور دیگر قبائل کو شکست ہوئی۔ (الاحزاب : 25 تا 27) 6۔تبوک میں مسلامن کامیاب ٹھہرے۔(التوبۃ:88)