مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ
اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے اندر دو دل [٢] نہیں بنائے۔ نہ ہی تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری مائیں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں [٣] کو تمہارے حقیقی بیٹے بنایا ہے۔ یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں مگر اللہ حقیقی بات کہتا ہے اور وہی صحیح راہ دکھاتا ہے
فہم القرآن: (آیت4سے6) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کو ” اللہ“ پر توکل کرنے کی تلقین کرنے کے بعد مسلم معاشرے سے رسومات کو ختم کرنے کا اعلان۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے ہی لوگوں کی مخالفت کی پر وہ کیے بغیر رسومات کا خاتمہ کیا کرتے ہیں۔ عرب معاشرہ میں متبنّٰی بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دینا اور جذبات میں آکر اپنی بیوی کو ماں کہہ بیٹھنا حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ ان الفاظ اور رسومات کے خلاف کرنا اس طرح تھا جیسے کوئی شخص خودکشی کرنے کا اعلان کردے۔ لوگوں کے دلوں سے ان رسومات کو کھرچ ڈالنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے کہ ایک دل میں اپنے رب کا خوف رکھے اور دوسرے دل میں لوگوں کا خوف سمایا رہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے سینے میں ایک ہی دل رکھا ہے تو اس کے دل میں ایک ہی ذات کا خوف اور اس کے حکم کا احترام ہونا چاہیے۔ لہٰذا حکم دیا جاتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھتے ہیں انہیں سن لینا چاہیے کہ اس طرح ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں بن جاتیں اور جن لے پالکوں کو تم اپنا بیٹا قرار دیتے ہو وہ تمہارے حقیقی بیٹوں کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے۔ یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں یعنی تمہارے اپنے الفاظ اور محبت کے جذبات ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے وہی سچ ہے اور وہ ہر معاملے میں سیدھے راستے کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ تم اپنے لے پالک بچوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ ” اللہ“ کے نزدیک یہی انصاف کی بات ہے اگر تمہیں ان کے باپوں کا نام معلوم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔ اس معاملے میں جو تم سے پہلے غلطی ہوگئی اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ اگر تم دانستہ طور پر غلطی کروگے تو اس پر مواخذہ کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ذکر کرتے ہیں یہ فرمان نازل ہونے سے پہلے لوگ نبی (ﷺ) کے متبنّٰی زید کو زید بن محمد کہتے تھے (رواہ البخاری : کتاب السیف) جونہی یہ حکم نازل ہوا تو ہم اسے زید (رض) بن حارثہ کے نام سے پکارنے لگے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) فارس کے رہنے والے اور حضرت صہیب (رض) روم کے رہنے والے تھے جس وجہ سے رومی کہلائے چھوٹی عمر میں وہ دشمن کے ہاتھ چڑھ گئے انہیں خود بھی معلوم نہ تھا کہ ان کے باپوں کے نام کیا ہیں۔ ( بخاری : کتاب المناقب) لوگوں کو اس بات پر الجھن ہوتی تھی کہ ضرورت کے وقت انہیں کس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جن کے باپ تمہیں معلوم نہیں وہ دینی اعتبار سے تمہارے بھائی اور دوست ہیں۔ آپ انہیں بھائی اور دوست کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو پیار سے بھائی اور بیٹا بھی کہا جا سکتا ہے لیکن وہ حقیقی بھائیوں اور بیٹوں کا درجہ نہیں پا سکتے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ أَوِ انْتَمیٰ إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ الْمُتَتَابِعَۃُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ أبوداوٗد : باب فی الرجل ینتمی الخ(صحیح)] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ فرماتے تھے جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے باپ کو اپنا باپ بنانے کا دعویٰ کیا یا کسی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے آقا کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا۔ اس پر قیامت کے دن تک ” اللہ“ کی لعنت برستی رہے گی۔“ (عَنْ سَعْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ، وَہْوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیْہِ، فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ)[ رواہ البخاری : باب مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ] ” حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سناکہ جس شخص نے اپنے باپ کا علم ہونے کے باوجود کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کی اس پر جنت حرام ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ 2۔ بیوی کو ماں کہنے سے وہ اپنے خاوند کی ماں نہیں بن جاتی۔ 3۔ متبنّٰی تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بن سکتے۔ 4۔ اللہ کا ہر فرمان سچ ہے اور وہ سیدھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔ 5۔ اپنے لے پالکوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ 6۔ جن کے باپ کا نام تم نہیں جانتے وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔ 7۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمانے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 2۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (الانعام :161) 3۔ اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔ ( الحج :54) 4۔ ہم نے قوم ثمود کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت پسند کی۔ (حٰم السجدۃ:17) 5۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ:120) 6۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص :56) 7۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 8۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات :17)