بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الاحزاب کا تعارف: الاحزاب کا لفظ اس سورت کی بیسیو یں آیت میں آیا ہے اس کے نو رکوع اور تہتر آیات ہیں یہ سورۃ مدینہ طیبہ اور اس کے گردونواح میں نازل ہوئی ہے اس سورۃ کے مرکز می مضامین یہ ہیں ۔ ربط سورة : سورة السجدہ کے اختتام میں فرمایا کہ منکرین حق سے بحث و تکرار کرنے کی بجائے ان سے الگ ہو جانا چاہیے ۔ الاحزاب کے آغاز میں بتلایا ہے کہ کفار اور منافقین کے پیچھے چلنے کی بجائے صرف اللہ تعالی کا حکم ماننا اور اس سے ڈرنا چاہیے ۔ اس سورۃ کا نام الاحزاب ہے جو ’’حزب‘‘ کی جمع ہے حزب کا معنی ہے گروہ ۔ غزوہ خندق میں مکہ والوں کے ساتھ اور بھی بہت سے گروہ شامل تھے اس لیے اس سورت کا نام الاحزب رکھا گیا۔ اہل مکہ کسی صورت بھی مسلمانوں کا وجود تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔غزوہ احد کے بعد ان کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ وہ دن رات سوچتے تھے کہ مسلمانوں کو کس طرح ملیا میٹ کیا جائے ۔ احد کی جزوی کامیابی کے بعد ان کے حوصلے بڑھ گئے اس لیے انہوں نے مکہ کے اردگر در ہنے والے قبائل کو یکجا کیا اور اس کے ساتھ مدینے کے یہودیوں اور منافقوں سے ساز باز کی اور طے کیا کہ سب مل کر مد ینہ پر اس طرح حملہ کر یں کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے ختم کر دیا جائے ۔ اس کے لیے دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ نبی معظم (ﷺ) کو جونہی اس صورتحال کا علم ہوا تو آپ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تجویز پر باہمی مشورے سے مدینہ کی خالی جانب خندق کھود نے کا انتظام کیا ۔لشکر لے کر مدینہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں ۔ نبی معظم ملی فی کو جو بھی اس صورتحال کا علم ہوا تو آپ نے سلمان ۔ فارسی مٹی کی تجویز پر باہمی مشورے سے مدینہ کی خالی جانب خندق کھود نے کا انتظام کیا ۔ 1۔ نبی (ﷺ) کے حوالے سے آپ اور تمام مسلمانوں کو یہ بات سمجھائی گئی کہ کفار اور منافقین کے پیچھے لگنے کی بجائے صرف اللہ تعالی کے حکم کی اتباع کرنا اور ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرنا ہے ۔ 2 ۔ اللہ تعالی نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اس نے ہر انسان کے سینے میں ایک ہی دل بنایا ہے ۔جس میں بیک وقت ایک ہی خوف اور فکر سماسکتی ہے اگر تم واقعی اپنے دلوں میں ایک ہی رب کی اطاعت کا جذ بہ لیے ہوئے ہوتو یاد رکھوا پنی خواہشات کے پیچھے لگنے کی بجائے صرف اپنے رب کے حکم کے پیچھے لگو اور اس سے ڈرواس کا حکم ہے کہ تمہارے کہنے پر تمہاری بیویاں تمہاری مائیں نہیں بن جاتیں اور نہ ہی تمہارے متمنی بیٹے تمہارے حقیقی بیٹے بن سکتے ہیں اس لیے انہیں ان کے باپوں کے نام سے ہی پکارا کرو۔ 3۔ مرتبہ اور محبت کے اعتبار سے اللہ کا نبی مومنوں کے نزدیک ان کی جانوں سے زیادہ محترم اور محبوب ہے اور ہونا چاہیے اسی بنا پر صرف نبی (ﷺ) کی شان ہے کہ اس کی بیویاں عام عورتوں کی طرح نہیں بلکہ وہ تمہاری ماں کا درجہ رکھتی ہیں ۔ 4 ۔ غزوہ احزاب کی کیفیت اور اس کے حالات کا تفصیلی ذکر کر نے کے بعد حکم دیا کہ اللہ کا رسول ہر حال میں تمہارے لیے اسوۃ حسنہ بنایا گیا ہے لہذا ہر حال میں تمہیں اس اسوۃ حسنہ کی پیروی کرنی چاہیے۔ 5 ۔ نبی (ﷺ) کی بیویوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم عام عورتوں جیسی نہیں ہو اس لیے تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ بنا چاہیے جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا وہ اپنے رب سے بڑا اجر پائے گا بڑا اجر پانے کے لیے ضروری ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو آخری فیصلہ تصورکر یں جس نے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو آخری فیصلہ تسلیم نہ کیا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ 6 ۔ اس سورۃ کے پانچو یں رکوع کے آخر میں حضرت زید اور حضرت زینب (رضی اللہ عنھما )کے نکاح کا ذکر ہوا ہے جن کا آپس میں نباہ نہ ہوسکا۔ زید نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی عدت پوری ہونے پر اللہ تعالی نے ایک اور رسم کا خاتمہ کرنے کے لیے زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح نبی (ﷺ) کے ساتھ کر دیا اور ساتھ ہی اس بات کی وضاحت فرمائی کہ محمد (ﷺ) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں جب آپ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تو زید ان کی بیوی آپ کی بہو کس طرح ہوسکتی ہے؟ نبی (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالی نے آپ کو خاتم النبیین کا اعزاز اور مقام دے کر نبوت کے سلسلے کو ہمیشہ کے لیے مکمل کر دیا ہے ۔ آپ (ﷺ) کی ذمہ داری ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے ہیں اور ہدایت کے چمکتے ہوئے سورج ہیں ۔ 7۔ اس سورۃ کے چھٹے اور ساتویں رکوع میں ان رشتوں ذکر کیا گیا ہے جن کے ساتھ آ دمی نکاح کر سکتا ہے اور آٹھو یں رکوع میں ازواج مطہرات اور مومن عورتوں کو پردہ کرنے کا طریقہ اور اس کا فائدہ ذکر کیا ہے۔ سورۃ الاحزاب کے اختتام میں خلافت کی امانت کا ذکر کیا ہے جس کو اٹھانے سے زمین و آسمان اور پہاڑوں نے بھی معذرت کر لی تھی مگر انسان نے اپنی جہالت کی وجہ سے اسے اٹھالیا اور اس جہالت کا نتیجہ ہے کہ کچھ لوگ منافق ہوئے اور کچھ مشرک ٹھہرے ۔ اللہ تعالی انہیں قیامت کے دن عذاب دے گا اور جن مومن بندوں اور عورتوں نے اس امانت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی مگر بتقاضائے بشریت ان سے خطائیں سرزد ہوگئیں اللہ تعالی انہیں معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف کر نے والا نہایت مہربان ہے۔