إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩
ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان آیات سے نصیحت کی جاتی ہے۔ تو سجدہ [١٧] میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
فہم القرآن: ربط کلام : ” اللہ“ کے احکام اور قیامت کو فراموش کردینے والوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے اور قیامت پر یقین رکھنے والوں کا کردار۔ ” اللہ“ کے باغیوں اور قیامت کے منکروں کے سامنے باربار نصیحت کرنے کا کچھ اثر نہیں ہوتا ان کے مقابلے میں جو لوگ اپنے رب پر ایمان رکھتے ہیں اور قیامت کے دن پر یقین کرتے ہیں۔ ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب بھی انہیں دین کی کوئی بات سمجھائی جائے یا ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا حکم آئے جس پر فوری طور پر سرجھکا نامقصود ہو تو وہ اپنے رب کے حضور سجدے میں پڑ کر اس کی حمدو ثناء کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی تکبر کرنے والے نہیں ہوتے۔ ان میں یہ بات بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ جب انہیں نماز کے لیے بلایا جائے تو وہ اپنے رب کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اس کے حضور قیام وسجود کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ تکبر کا معنٰی پہلے بھی بیان ہوچکا ہے تاہم موقع کی مناسبت سے پھر تحریر کیا جاتا ہے۔ (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُول اللَّہ (ﷺ) کَانَ یَقْرَأُ فِیْ صَلاَۃِ الْفَجْرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ تَنْزِیْلَ السَّجْدَۃِ وَ ﴿ہَلْ أَتَی عَلٰی الإِنْسَانِ حِیْنٌ مِنَ الدَّہْر﴾)[ رواہ ابوداوٗد : باب مَا یُقْرَأُ فِیْ صَلاَۃِ الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۃ سجدہ اور سورۃ دھر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔“ نبی محترم (ﷺ) مشکل ترین وقت میں اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اس کی مدد کے طلب گارہوتے تھے۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر اللہ کے حضور ان الفاظ میں عرض کرتے رہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) یَوْمَ بَدْرٍاللَّہُمَّ أَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعْدَکَ، اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ فَأَخَذَ أَبُو بَکْرٍ بِیَدِہِ فَقَالَ حَسْبُکَ فَخَرَجَ وَہْوَ یَقُولُ ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّون الدُّبُرَ﴾)[ رواہ البخاری : کتاب المغازی] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے بدر کے دن یہ دعا کی۔” اے اللہ میں تیرے عہد اور وعدے کا تجھے واسطہ دیتا ہوں اے اللہ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری عبادت نہ کی جائے۔“ ابوبکر (رض) نے آپ (ﷺ) کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) بس کیجیے۔ آپ (ﷺ) یہ کہتے ہوئے نکلے کہ عنقریب لشکروں کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔“ [ رواہ البخاری : باب قصۃ غزوۃ بدر) حالات کا دباؤ اس قدر تھا کہ آپ (ﷺ) سجدے میں پڑے روتے ہوئے یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے ہمیشہ زندہ اور قا ئم رہنے والے اللہ ہماری نصرت فرما۔ سجدہ تلاوت کی دعا : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم(صحیح)] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کرکان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مسائل: 1۔ ایمان دار لوگ متکبر نہیں ہوتے۔ 2۔ ایمان داروں کے سامنے سجدہ کی آیات پڑھی جائیں تو وہ اپنے رب کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: تکبر سے بچنے کا حکم : 1۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص :74) 2۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص :39) 3۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن :35) 4۔ متکبّرکو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل :23) 5۔ اللہ تعالیٰ فخر وغرور کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :36) 6۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن :76) 7۔ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید :23)