وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اور اگر ہم چاہتے تو (پہلے ہی) ہر شخص کو ہدایت دے [١٤] دیتے لیکن میری بات پوری ہو کے رہی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے [١٥] بھر دوں گا۔
فہم القرآن: (آیت13سے14) ربط کلام : مجرموں کی درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ مجرموں کو مزید احساس دلانے اور ذلیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے لیکن میرا فرمان سچ ثابت ہوا کہ میں جہنم کو بہت سے جنوں اور انسانوں سے بھروں گا لہٰذا اب جہنم کا عذاب چکھو اس لیے کہ تم میری ملاقات کو فراموش کرچکے تھے لہٰذا ہم نے بھی تمہیں فراموش کردیا ہے بس اب تم اپنے کیے کے بدلے میں ہمیشہ کا عذاب سہتے رہو۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین ارشادات فرمائے ہیں۔ 1 ۔اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام جنوں اور انسانوں کو ہدایت سے سرفراز کردیتا چاہنے سے مراد جبراً ہدایت دینا ہے اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو اچھائی اور برائی کا شعور دے کریہ اختیار بخشا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اچھائی کریں یا برائی کریں۔ جہنم میں داخل ہونے والوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو فراموش کیا اور دنیا کو مقدم سمجھا جس وجہ سے انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ 2 ۔یہاں مجرمین کے لیے ” اَجْمَعِیْنَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے مراد تمام کے تمام نافرمان جنّ اور انسان ہیں۔ 3 ۔اللہ تعالیٰ کا کسی کو فراموش کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ خاکم بدھن کہ اللہ تعالیٰ بھی بھول جاتا ہے۔ فراموش کرنے کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ کے لیے اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور ان پر نظر کرم نہیں فرمائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَا لَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) یُلْقٰی عَلَی أَہْلِ النَّارِ الْجُوْعُ فَیَعْدِلُ مَا ہُمْ فِیْہِ مِنَ الْعَذَابِ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ فَیُغَاثُوْنَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِیْعٍ لاَ یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ بالطَّعَامِ فَیُغَاثُوْنَ بِطَعَامٍ ذِیْ غُصَّۃٍ فَیَذْکُرُوْنَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُجِیْزُوْنَ الْغُصَصَ فِیْ الدُّنْیَا بالشَّرَابِ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ بالشَّرَابِ فَیُرْفَعُ إِلَیْہِمُ الْحَمِیْمُ بِکَلاَلِیْبِ الْحَدِیْدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوْہِہِمْ شَوَتْ وُجُوْہَہُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُوْنَہُمْ قَطَّعَتْ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا خَزَنَۃَ جَہَنَّمَ فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ تَکُ تَأْتِیْکُمْ رُسُلُکُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا بَلٰی قَالُوْا فَادْعُوْا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِیْنَ إِلاَّ فِیْ ضَلاَلٍ قَالَ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا مَالِکًا فَیَقُوْلُوْنَ ﴿یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ﴾ قَالَ فَیُجِیْبُہُمْ ﴿إِنَّکُمْ مَاکِثُوْنَ﴾ قَالَ الأَعْمَشُ نُبِّئْتُ أَنَّ بَیْنَ دُعَائِہِمْ وَبَیْنَ إِجَابَۃِ مَالِکٍ إِیَّاہُمْ أَلْفَ عَامٍ قَالَ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ فَلاَ أَحَدَ خَیْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ ﴿رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّیْنَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُوْنَ﴾ قَالَ فَیُجِیْبُہُمْ ﴿اخْسَئُوْا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنِ﴾ قَالَ فَعِنْدَ ذَلِکَ یَئِسُوْا مِنْ کُلِّ خَیْرٍ وَعِنْدَ ذَلِکَ یَأْخُذُوْنَ فِیْ الزَّفِیْرِ وَالْحَسْرَۃِ وَالْوَیْلِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت ابی دردا (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلا ہوں گے وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس دی جائے گی جس سے نہ وہ موٹے ہو نگے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا کہ ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ دنیا میں جب کھانا حلق میں اٹک جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے۔ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے برتنوں میں دیا جائے گا جب وہ اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے اور جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ کے رہ جائیں گے وہ جہنم کے دروغے سے فریاد کریں گے انہیں جواب دیا جائے گا کیا تمہارے پاس رسول معجزات لے کر نہیں آئے تھے جہنمی جواب دیں گے ہاں! تو فرشتے کہیں گے تم چیختے چلاتے رہو تمہاری فریاد رائیگاں جائے گی وہ کہیں گے مالک کو پکارو تو جہنمی مالک کو پکاریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ ہمارے مرنے کا فیصلہ فرما دے انہیں جواب دیا جائے گا تم ہمیشہ اسی میں رہو گے حدیث بیان کرنے والے اعمش نے کہا ان کو جہنم کے کنٹرولر فرشتے مالک کی طرف سے ایک ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا۔ دوزخی آپس میں کہیں گے کہ اپنے پروردگار کو پکارو تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں تو وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ تھے اے ہمارے پروردگار ہمیں اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسے اعمال کریں تو ہم ظالم ہوں گے۔ انہیں جواب دیا جائے گا اسی دوزخ میں رہو اور ہم سے کوئی بات نہ کرو اب وہ ہر بھلائی سے نا امید ہوجائیں گے اور آہ وزاریاں کریں گے اور کھانے پینے پر حسرت کا اظہار کریں گے اور واویلا کرتے رہیں گے۔“ مسائل: 1۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو جبراً ہدایت دینا چاہتا تو کوئی شخص گمراہ نہ ہوتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نافرمان جنوں اور انسانوں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ 3۔ جو لوگ قیامت کو فراموش کریں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں فراموش کردے گا۔ 4۔ کفار اور مشرکین ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن: جہنمیوں کی جہنم میں آہ زاریاں : 1۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم :44) 2۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 4۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون :107) 5۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ:20) 6۔ ہر جہنمی کی خواہش ہوگی کہ اسے دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : 27تا28) 7۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 8۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج :22) 9۔جہنم سے نکلنے کی کوئ صورت نہیں ہوگی۔(البقرۃ:167) 10۔وہ پکاریں گے اے مالک تیرا رب ہمیں موت دے دے مالک جواب دے گا اب ہونہی پڑے رہو گے ۔(الزخرف:77) 11۔ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گےاور کہیں گے کاش!میں نے رسول کو سمجھا ہوتا۔(الفرقان:27 ۔30) 12۔جب یہ زنجیروں سے جکڑے ہوئےاس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گےتو اپنی موت کو پکاریں گے۔(الفرقان:13)