وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
کاش آپ دیکھیں جب مجرم اپنے پروردگار کے حضور سرجھکائے کھڑے ہوں گے (اور کہیں گے) ''اے ہمارے رب! ہم نے (سب کچھ) دیکھ لیا اور سن لیا لہٰذا ہمیں واپس بھیج دے کہ ہم اچھے عمل کریں [١٣]۔ اب ہمیں یقین آگیا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جو لوگ مر کر جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن ان کی حالت دیدنی ہوگی۔ سروردوعالم (ﷺ) سے منکرین قیامت اس بات پر جھگڑا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد کسی نے زندہ نہیں ہونا حالانکہ قرآن مجید نے مرنے کے بعد جی اٹھنے کے درجنوں دلائل دئیے ہیں جن میں ثبوت کے طور پر عزیر (علیہ السلام) اور ان کے گدھے کا زندہ کیا جانا، ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے چار پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا، اصحاب کہف کا (309) تین سو نوسال بعد جی اٹھنا، موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے مقتول کا زندہ ہونا بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا۔ (البقرہ آیت259) عیسیٰ ( علیہ السلام) کا مردوں کو زندہ کرنا۔ (المائدہ :110) اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ پیدا فرما کر اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا جب منکرین قیامت اس کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو وہ ذلّت اور خوف کی وجہ سے اپنے رب کے سامنے گردنیں جھکائے ہوئے فریاد پر فریاد کریں گے۔ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھ لی اور سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا ہے اب ہمیں واپس جانے دیجیے تاکہ ہم نیک عمل کریں کیونکہ اب ہمیں یقین ہوچکا ہے کہ قیامت برحق ہے۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ذلّت اور خوف کی وجہ سے مجرم سرجھکائے ہوئے ہوں گے۔ 2۔ مجرم دنیا میں واپس لوٹنے کی فریاد کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن مجرمین کی فریادیں : 1۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 2۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : 37۔ المومنون :107)