يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
وہی آسمان سے زمین تک کے انتظام کی تدبیر کرتا ہے۔ پھر ایک روز جس کی مقدار تمہارے حساب سے ایک ہزار سال ہے وہی انتظام [٦] اس کی طرف اٹھ جائے گا
فہم القرآن: (آیت5سے6) ربط کلام : اللہ تعالیٰ عرش بریں پر متمکن ہونے کے باوجود پوری کائنات کا مالک اور اس کا نظام چلا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش بریں پر متمکن ہو کر کائنات کے نظام سے لاتعلق نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے کائنات کانظام چلانے کے لیے کچھ ذمہ داریاں دوسروں کو سونپ رکھی ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنا بدترین شرک ہے اس کی نفی کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ وہ آسمان سے لے کر زمین تک بلا شرکت غیرے پورے کا پورا نظام چلارہا ہے۔ جو ہستی اتنی زبردست ہے کہ پوری کائنات کو عدم سے وجود میں لائی ہے اور اس کا نظام بلاشرکت غیرے چلا رہی ہے اس کے مقابلہ میں تمہارے معبودجنہیں تم سرپرست اور سفارشی سمجھ بیٹھے ہو تمہارے کس کام آسکتے ہیں۔ کیا تمہیں اتنی موٹی حقیقت بھی سمجھ نہیں آتی ؟ اسے کسی کی مشاورت اور معاونت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جانتا ہے۔ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ سب پر غالب ہونے کے باوجود نہایت مہربان ہے۔ پہلی آیت میں تدبیرِ کائنات کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جو تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال بنتا ہے۔ تمہارا ہزار سال اس کے ہاں ایک دن کے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا حقیقی معنٰی کیا ہے اس کے بارے میں اہل تفسیر نے پانچ آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ 1 ۔دنیا میں جو کام ایک ہزار سال کی مدت میں پورے ہونے والے ہوتے ہیں۔ اس کے ہاں یہ مدت ایک دن کے برابر ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کچھ کام ملائکہ کے حوالے کرتے ہیں۔ جب ہزار سالہ منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو ملائکہ اس کی رپورٹ اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگلے ایک ہزار سال کا منصوبہ ان کے حوالے کردیتے ہیں۔ 3 ۔اس سے مراد قیامت کا ایک دن ہے جو دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اس طرح قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ 4 قرآن پاک نے جب یہ بات کفار کو بتلائی کہ اگر تم اپنے فکروعمل سے باز نہ آئے تو تم پر عذاب نازل ہوگا۔ اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے کفار نے اس دن کا مذاق اڑایا اور مطالبہ کیا کہ اب تک عذاب نازل کیوں نہیں ہوا؟ اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ جس مدت کو تم ایک ہزار سال سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایک دن کے برابر ہے۔ (الحج :47) 5 مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کو متشابہات میں شمار کرتے تھے ان کا فرمان ہے کہ ہمیں اس دن کے بارے میں قیل وقال کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرنا چاہیے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی پوری کائنات کے نظام کو چلارہا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی کائنات کو بنانے اور اس کے نظام کو چلانے والاہے : 1۔ اللہ تعالیٰ سب کو پیدا کرنے والا ہے۔ ( النساء) 2۔ اللہ تعالیٰ سب کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ:1) 3۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق ہے۔ (الانعام :102) 4۔ اللہ تعالیٰ کائنات کا مالک ہے۔ (یونس :31) 5۔ اللہ تعالیٰ کائنات کا نظام چلانے والا۔ (فاطر :13) 6۔ اللہ تعالیٰ حاکم مطلق ہے۔ (یوسف :40) 7۔ اللہ تعالیٰ ہی عطا کرنے والا ہے۔ ( سبا :15) 8۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف :54) 9۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن :62) 10۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران :102) 11۔ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، اور وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس :4)