وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ
اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے۔ اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) ''بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے: کیا (یہ انہی کی پیروی کریں گے) خواہ شیطان انھیں دوزخ کے عذاب [٢٩] کی طرف بلاتا رہا ہو؟
فہم القرآن: ربط کلام : انسان کا اپنے رب کے ساتھ جھگڑنے کا ایک انداز۔ انسان کا حقائق ٹھکرانے اور اپنے رب کے ساتھ جھگڑنے کا یہ بھی انداز ہے کہ جب اسے یہ بات کہی جاتی ہے کہ صرف اس کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو اسی کی اتّباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے گویا کہ یہ اپنے آباء و اجداد کی رسومات کو دین سمجھتے ہیں۔ جس کے بارے میں سورۃ البقرہ آیت 171میں یہ ارشاد ہوا کہ ” کیا ان کے باپ دادا دین کے بارے میں کوئی سمجھ اور رہنمائی نہ رکھتے تھے“ اس کے باوجود یہ ان کی پیروی کریں گے۔ ایسے کفار کی مثال تو اس شخص کی ہے جو شخص چِلّانے کی آواز کے سوا کچھ نہیں سمجھتا یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں ایسے لوگ کبھی عقل سے کام نہیں لیتے۔ (البقرۃ:171) یہاں یہ ارشاد ہوا ہے کیا ان کے باپ دادا کو شیطان جہنم کے عذاب کی طرف بلاتا رہا اور وہ جہنم کے راستے پر ہی چلتے رہے اس کے باوجود یہ لوگ اپنے باپ، دادا کے طریقے پر چلتے رہیں گے؟ اس فرمان میں سمجھانا مقصود یہ ہے کہ دانشمندی کا تقاضا اور جہنم کے راستے سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ رہنمائی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ کسی اور کے پیچھے نہ چلے۔ مسائل: 1۔ اکثر لوگ بلا دلیل اپنے آباء و اجداد کی پیروی کرتے ہیں۔ 2۔ شیطان انسان کو جہنم کے راستے کی دعوت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منکرین حق کے بہانے: (الانبیاء:2)(یونس:76)(ق:5)(النجم:28)(الزخرف:30)(القصص:48)