أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ نے تمہارے لئے کام [٢٦] پر لگا دیا ہے اور اس نے اپنی تمام ظاہری و باطنی [٢٧] نعمتیں تم پر پوری کردی ہیں (اس کے باوجود) لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے جبکہ اس کے پاس نہ علم ہے نہ ہدایت اور نہ کوئی روشنی [٢٨] دکھانے والی کتاب ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت لقمان کی وصیتوں میں سر فہرست وصیت ” اللہ“ کی توحید ہے۔ توحید سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غوکرے۔ کیا انسان اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو ان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں کہ ان کا شکر ادا کرنا تو درکنار انہیں شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ انسان اپنے رب کی شکر گزاری اور تابعداری کرنے کی بجائے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے۔ کافر اپنے رب کی ذات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک بناکر جھگڑا کرتا ہے۔ اگر ان کو سمجھایا جائے تو یہ اپنے رب کی ذات اور صفات کے خلاف من گھڑت دلیلیں ہی نہیں دیتے بلکہ موحد کے ساتھ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ کافر اور مشرک کے پاس اپنے باطل عقیدہ کی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کسی حقیقی علم، آسمانی ہدایت اور کتاب الٰہی کی دلیل کے بغیر جھگڑتے ہیں۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تعلق ہے ان میں کھلی نعمتیں تو انسان کے سامنے ہیں۔ جن نعمتوں کا انسان تصور نہیں کرسکتا تھا وہ بھی ظاہر کی جا رہی ہیں۔ کیا آج سے کچھ مدّت پہلے کا انسان گیس، بجلی، ہوائی جہاز، ٹرانسپورٹ اور بے شمار موجودہ ایجادات کو جانتا تھا؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے انسانوں کو، کونسی نعمتوں سے نوازنے والا ہے۔ لیکن نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے جو ہمارے رب نے ہم پر مکمل کردیا ہے۔