وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں [١٩] تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا مگر پیروی اس شخص کی راہ کی کرنا جس نے میری طرف رجوع [٢٠] کیا ہو۔ پھر تمہیں میرے پاس [٢١] ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن: ربط کلام : والدین کی فرمانبرداری کی حدود۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنم اور نسب کے حوالے سے انسان پر اس کے والدین کا بہت زیادہ حق ہے۔ لیکن انسان کا حقیقی خالق اور مالک ” اللہ“ ہے۔ اس نے انسانی افزائش کے لیے والدین کو اپنی تخلیق کا ذریعہ بنایا ہے اس لیے اس نے اپنی بندگی کے بعد ماں باپ کی سمع و اطاعت کا حکم دیا ہے۔ لیکن والدین کی اطاعت کی بھی ایک حد مقرر فرمائی ہے۔ بیشک والدین یہودی، عیسائی یا کسی بھی دین پر ہوں ان کی سمع و اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اس وقت تک جب تک وہ کفرو شرک کا حکم نہ دیں۔ اگر وہ کفرو شرک، اور بدعات کا حکم دیں تو ان کا حکم ماننا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفرو شرک کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ لہٰذا دنیا کے اچھے معاملات میں والدین کی تابعداری کرنی ہے۔ مگر دین کے معاملہ میں پیروی اس شخص کی کرنی ہے جو ” اللہ“ کے راستے کی طرف بلانے والا ہو بالآخر سب کو ” اللہ“ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ وہ بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ (عَنِ النَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ) [ شرح السنۃ للبغوی :باب الطاعۃ فی المعروف] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔“ حضرت سماک بن حرب بیان کرتے ہیں میں نے مصعب بن سعد (رض) سے سنا وہ اپنے باپ سعد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میرے متعلق چار آیات نازل ہوئی انہوں نے اپنی والدہ کا قصہ بیان کیا سعد (رض) کی والدہ کہنے لگی کیا اللہ نے ماں کے ساتھ نیکی کا حکم نہیں دیا ؟ اللہ کی قسم اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی اور نہ پانی پیؤں گی یہاں تک کہ میں مر جاؤں۔ جب تک تو محمد (ﷺ) کا انکار نہ کرے۔ راوی کہتے ہیں جب سعد ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو وہ منہ بند کرلیتی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات کا مطالبہ کریں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جسکا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہیں کرنا۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ میں تمہیں بتلا دوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْعَنْکَبُوتِ(صحیح)] اس آیت میں ارشادفرمایا گیا ہے کہ کسی کو ” اللہ“ کا شریک اس لیے نہیں بنانا کیونکہ تجھے اس کا علم نہیں۔ علم اور معرفت کسی چیز کو جاننے کا نام ہے، جس کی بنیاد ٹھوس اور واضح دلیل پر ہونی چاہیے۔ کیونکہ شرک کی واضح اور ٹھوس دلیل نہیں ہوتی اس لیے فرمایا ہے کہ جس کا تو علم نہیں رکھتا اسے اپنے رب کا شریک نہ بنانا۔ اسی بنیاد پر فرمایا گیا ہے کہ اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ہوسکتے۔ (فاطر :20) مسائل: 1۔ کفرو شرک میں کسی کی تابعداری کرناجائز نہیں۔ 2۔ کافر اور مشرک والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا لازم ہے۔ 3۔ جو شخص اللہ کے راستے کی طرف بلائے اس کی بات ماننا چاہیے۔ 4۔ سب نے ” اللہ“ کی طرف پلٹنا ہے وہ لوگوں کو ان کے اعمال کی خبر دیگا۔ تفسیر بالقرآن: شرک کی کوئی دلیل نہیں : 1۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون :117) 2۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء :24) 3۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل :64) 4۔ کچھ لوگ ” اللہ“ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج :71) 5۔ لوگو! تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے حالانکہ اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام :81) 6۔ اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے اس کی توحید کی دلیل آچکی ہے۔ (النساء :175)