وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
اور ہم [١٦] نے انسان کو اپنے والدین سے (نیک سلوک کرنے کا) تاکیدی [١٧] حکم دیا۔ اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہتے ہوئے ( اپنے پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو سال اس کے دودھ [١٨] چھڑانے میں لگے (اسی لئے یہ حکم دیا کہ) میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی (آخر) میرے پاس ہی (تجھے) لوٹ کر آنا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : حقوق اللہ کے بعد سب سے پہلے والدین کے حقوق ہیں اس لیے ان کے بارے میں نصیحت کی جا رہی ہے۔ اردوزبان میں وصیّت سے مراد وہ بات لی جاتی ہے جو فوت ہونے والا شخص کسی کے بارے میں اپنے ورثاء کو نصیحت کرتا ہے لیکن عربی زبان میں ہر نصیحت کے لیے وصیّت اور نصیحت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی بندگی کے بعد انسان پر سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر توحید باری تعالیٰ کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ والدین میں جس شخصیت کا حق فائق ہے وہ انسان کی ماں ہے کیونکہ ماں اپنے بچے کے لیے بڑی مشقت برداشت کرتی ہے صاحب امید ہونے کے بعد بچے کو جنم دینے تک ہر آنے والا دن ماں کے لیے بھاری ہوتا ہے۔ ماں کے لیے بچے کو جنم دینا کا یہ دورانیہ موت وحیات کے مترادف ہوتا ہے۔ اس کے بعد ماں اپنے نونہال کو دوسال تک دودھ پلاتی ہے جس دوران ماں ایسی خوراک نہیں کھا سکتی جس کا بچے کی افزائش پر منفی اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔ اس طرح ماں پہلے دن سے لے کر بچے کا دودھ چھڑانے تک آزمائش کے دور سے گزرتی ہے۔ اسی لیے احادیث کی مقدس دستاویزات میں باپ سے زیادہ ماں کے حقوق کا تذکرہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اے انسان ہر دم میرا شکر ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین بالخصوص اپنی ماں کا شکر گزار رہنا۔ کیونکہ اس نے تجھے بڑی تکلیف کے ساتھ جنم دیا اور تجھے دو سال دودھ پلایا ہے اور یاد رکھنا بالآخر تجھے میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔ آخرت کی یاد دلاکر آدمی کو ایک انتباہ کیا گیا ہے تاکہ اولاد اپنے والدین کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھے۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کی قدر جاننے کے ساتھ اس کی فرمانبرداری میں لذت محسوس کرتا ہے اس لیے شکرگزار ہی نیک ہوتے ہیں۔ ابتدائی دور میں بے شمار ایسے صحابہ کرام (رض) تھے جن کی مشرکوں کے ساتھ قریبی رشتہ داریاں تھیں۔ مالدار صحابہ قبل از ایمان مشرک رشتہ داروں کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ لیکن کلمہ پڑھنے کے بعد انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جس پر یہ فرمان نازل ہوا جس میں وضاحت فرمائی ہے کہ جو کچھ بھی تم اللہ کی رضا کے لیے غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر عنایت کیا جائے گا۔ حضرت اسماء (رض) کی والدہ اپنی بیٹی اسماء (رض) سے تعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ آئی جس پر حضرت اسماء (رض) آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتی ہیں کہ میری والدہ مجھ سے مالی تعاون کی امید رکھتی ہے۔ کیا میں مشرکہ والدہ کے ساتھ تعاون کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا : تمہیں اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الھبۃ وفضلھا، باب الھدیۃ للمشرکین] (عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ)[ رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب فی برالوالدین(صحیح)] ” بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں کس سے اچھا سلوک کروں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ 2۔ والدین میں والدہ کے حقوق فائق ہیں۔ 3۔ بچے کی رضاعت کی مدّت دو سال ہے۔ تفسیر بالقرآن: والدین کے بارے میں اولاد کو قرآن مجید کی ہدایات : 1۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ:83) 2۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل :24) 3۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان :15) 4۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم۔ (مریم :32) 5۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل :23) 6۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل :23)