وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی (جو یہ تھی) کہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی (فائدہ کے) لئے کرتا ہے اور جو ناشکری [١٤] کرے تو اللہ یقیناً (اس کے شکر سے) بے نیاز ہے اور خود اپنی ذات میں محمود ہے
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ہر قسم کے چوپائے پیدا کیے اور پھر اسی سے انسان کے رزق کا بندوبست فرمایا۔ جس پر ہر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے اور یہی عقل مندی ہے۔ اب ایک عقل مند شخص کا عقیدہ اور اس کی دانائی پر مبنی نصیحتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عرب کی تاریخ میں حضرت لقمان ایک جانی پہچانی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور مؤرّخ لکھتے ہیں کہ یہ نسب کے اعتبار سے خالص عربی تھے۔ بعض مؤرّخین نے انہیں افریقی نسل قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ عربی النسل تھے۔ ان کا قد چھوٹا، رنگ کالا اور بدن بھاری تھا۔ ظاہری طور پر پرکشش شخصیت نہ ہونے کے باوجود اپنی دانشمندی کی وجہ سے اس زمانے کی پوری دنیا پر ان کے اقوال حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ ان کی دانائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت ” اللہ“ کی توحید کو سمجھا اور اس کا پرچار کیا جب دنیا کفر و شرک کے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی۔ اہل عرب بالخصوص مکہ کے لوگ ان کی دانائی کے بڑے معترف تھے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے نام پر یہ سورت نازل فرمائی اور ان کے نصائح میں سب سے پہلے یہ نصیحت ذکر فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحتیں کرتے ہوئے سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ عقیدہ توحیدتھا۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کو پہنچانتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا محسِن اس کا خالق ہے۔ اس لیے، حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہنے کی نصیحت فرمائی۔ یہی انسان کے دانشمند ہونے کی پہلی دلیل ہے۔ شکر کے بے شمار فوائد ہیں۔ جن میں چند ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا۔ مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے۔ اور یہ رب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ شرک خالق کی سب سے بڑی ناشکری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ رہو گے اور مزیدنعمتیں پانے کے حقدار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں فرمایا کہ اگر شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں مزید عطا فرمائے گا (ابراہیم :7) اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سرکشی اور بغاوت کی حدود پھلانگتے ہوئے کہا تھا۔﴿[وَلَاتَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِینَ﴾ [ الاعراف :17]” اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔“ شکروہ جذبہ ہے جس سے انسان کی طبیعت خود بخود اپنے محسن کے ادب واحترام اور اس کی سمع واطاعت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔ اعتراف احسانات سے ” اللہ“ کی ذات کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے ذات باری تعالیٰ کے شکریے کو ہر محسن کے شکر یے کے ساتھ منسلک فرمایا ہے (مَنْ لَمْ یَشْکُرِالنَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہَ ) ” جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ ” اللہ“ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔“ آپ (ﷺ) کے فرمان کا مقصدیہ ہے کہ جو شخص اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کرتا وہ خالق کائنات کے پہاڑوں جیسے ان گنت احسانات کا شکریہ کس طرح ادا کرسکتا ہے۔ آپ (ﷺ) ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ]” اے اللہ اپنے شکر اور بہترین اندازسے عبادت کرنے کی توفیق نصیب فرما۔“ ” حضرت ابی سعید مقبری حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ یہ دعا میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے جب سے یاد کی اس کو چھوڑا نہیں۔ (اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ وَأَتَّبِعُ نَصِیحَتَکَ وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ) اے اللہ مجھے سب سے زیادہ شکر گذار، کثرت سے ذکر کرنے، ہدایت کی پیروی کرنے اور نصیحت کی حفاظت کرنے والا بنا دے۔“ [ رواہ الترمذی : باب فی الاستعاذۃ(ضعیف)] مسائل: 1۔ عقیدہ توحید اپنانا اور اس کا پرچار کرنا بہت بڑی دانائی ہے۔ 2۔ شرک بہت بڑی ناشکری ہے۔ 3۔ شکر کا فائدہ انسان ہی کو ہوتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کے کفر کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ غنی اور صاحب تعریف ہے۔