إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ
البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے نعمتوں والے باغ ہیں۔
فہم القرآن: (آیت8سے9) ربط کلام : ﴿ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ﴾ پانے والوں کے بعد ﴿ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ﴾ کا انعام پانے والوں کا ذکر خیر۔ فہم القرآن میں کئی مقامات پر یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ اکثر مقام پر جنّت اور جہنم کا بیک مقام ذکر کرتا ہے تاکہ قارئ قرآن کے سامنے بیک وقت دونوں قسم کے انجام آجائیں اور وہ غور کرے کہ مجھے کس قسم کے اعمال اختیار کرنے چاہئیں تاکہ میں دنیا وآخرت کی ذلّت سے بچ جاؤں اور اپنے رب کے انعامات کا حقدار ہوجاؤں ایسے لوگوں کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے جو اپنے رب پر بلا شرکت غیرے ایمان لائے اور اس کے بتلائے ہوئے نیک اعمال کرتے رہے۔ وہ نعمتوں والی جنت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ان کے ساتھ ” اللہ“ کا سچاوعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا ہر وعدہ پورا کرنے پر غالب اور اس کے ہر حکم اور فیصلے میں اَن گنت حکمتیں ہوتی ہیں۔ جنت کے حسن وجمال کی ایک جھلک : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) الْجَنَّۃُ مَا بِنَاؤُہَا قَالَ لَبِنَۃٌ مِنْ فِضَّۃٍ وَلَبِنَۃٌ مِنْ ذَہَبٍ وَمِلاَطُہَا الْمِسْکُ الأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُہَا اللُّؤْلُؤُ وَالْیَاقُوتُ وَتُرْبَتُہَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ یَّدْخُلْہَا یَنْعَمْ وَلاَ یَبْأَسْ وَیُخَلَّدْ وَلاَ یَمُوْتُ لاَ تَبْلَی ثِیَابُہُمْ وَلاَ یَفْنٰی شَبَابُہُمْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ(صحیح)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جنّت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کی ایک اینٹ چاندی کی اور دوسری سونے کی ہے اور اس کا گارا خوشبودار کستوری کا ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم رہے گا۔ اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی وہ بوڑھا ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا إِنْ شِئتُمْ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ﴾[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ مسائل: 1۔ صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے نعمتوں والی جنت ہوگی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ حکیم اور غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن: جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : 1۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : 47۔48) 2۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد :35) 3۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : 28تا30) 4۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ:23) 5۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ:31) 6۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ ( محمد :10) 7۔ جنت میں نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں کسی جن وانس نے چھوا تک نہیں ہوگا۔ ( الرحمن :56) 8۔ جنت میں محبت کرنے والی ہم عمر حوریں ہوں گی۔ ( الواقعہ :37)