وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے والدین [١٠] سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات پر زور دیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں [١١] تو ان کا کہنا نہ مان [١٢]۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں [١٣] گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن: (آیت8سے9) ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں نیک اعمال کا ذکر ہوا۔ یہاں یہ بتلایا کہ اچھے اعمال میں بہترین عمل والدین کے ساتھ بھلائی کرنا اور شرک سے اجتناب کرنا ہے۔ صالح اعمال میں سب سے بڑا عمل۔ اللہ تعالیٰ کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک سمجھنا اور اس کی خالص عبادت کرنا ہے۔ اس کے بعد دوسرا صالح عمل والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ قرآن مجید کے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد انسان کو جو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ” احسان“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ عبادت کے بارے میں استعمال ہو تو اس کا معنی ہے کہ کامل توجہ کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا۔ جب یہ لفظ لوگوں کے بارے میں استعمال کیا جائے تو اس کا معنٰی بھلائی اور دوسرے کے ساتھ احسان کرنا۔ بالخصوص والدین کے بارے میں یہ لفظ بار بار اس لیے استعمال کیا گیا ہے۔ کہ والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہوئے ان کی کمزوریوں کو پیش نظر رکھے بغیر ان کے ساتھ احسان کا روّیہ اختیار کرنا فرض ہے۔ انسان جب اپنے آپ کو کسی کا احسان مند سمجھتا ہے تو وہ اس کی دل و جان سے قدر اور تابعداری کرتا ہے۔ اس لیے یہاں اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ اگر والدین اولاد کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں تو اولاد شرک کرنے سے انکار کردے۔ کیونکہ شرک کی بنیاد حقیقی علم اور کسی ٹھوس دلیل پر نہیں ہے۔ جب شرک کی بنیاد حقیقی علم اور ٹھوس دلیل پر نہیں تو اس سے بچنا لازم ہے۔ بے شک والدین ہی شرک کا حکم دینے والے کیوں نہ ہوں۔ یہاں اولاد کے ساتھ مشرک والدین کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ یاد رکھو کہ بالآخر تم سب نے میری طرف ہی لوٹنا ہے۔ میں تمھیں بتلاؤں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ اولاد ہو یا ماں باپ، جو بھی سچا ایمان لائے اور صالح اعمال کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ضرور نیک لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی بِہِنَّ وَلَوْ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِی) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ﴾] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (ﷺ) سے استفسار کیا کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں یہ باتیں نبی اکرم (ﷺ) نے بتائیں اگر میں مزید پوچھتا تو آپ مجھے اور بھی بتاتے۔“ (عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ سَعْدٍ قَالَ أُنْزِلَتْ فِیَّ أَرْبَعُ آیَاتٍ فَذَکَرَ قِصَّۃً فَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَ اللَّہُ بالْبِرِّ وَاللَّہِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّی أَمُوتَ أَوْ تَکْفُرَ قَالَ فَکَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ یُطْعِمُوہَا شَجَرُوا فاہَا فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ﴿وَوَصَّیْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا﴾الآیَۃَ) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْعَنْکَبُوتِ] حضرت سماک بن حرب بیان کرتے ہیں میں نے مصعب بن سعد (رض) سے سنا وہ اپنے باپ سعد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میرے متعلق چار آیات نازل ہوئی انہوں نے اپنی والدہ کا قصہ بیان کیا سعد کی والدہ کہنے لگی کیا اللہ نے ماں کے ساتھ نیکی کا حکم نہیں دیا۔ اللہ کی قسم اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی اور نہ پانی پیؤں گی یہاں تک کہ میں مر جاؤں یا تو محمد (ﷺ) کا انکار کرے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب سعد اپنی ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو وہ اپنا منہ بند کرلیتی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات پر زور دیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ میں تمہیں بتلا دوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔) (عِنِ النَّوَاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ) (رواہ فی شرح السنۃ)[ مشکوۃ المصابیح : باب کتاب الامارۃ والقضاء] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی جائز نہیں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَعْصِیَ اللَّہَ فَلاَ یَعْصِہِ) [ رواہ الترمذی : باب مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ] ” حضرت عائشہ (ﷺ) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔ اور جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔“ مسائل: 1۔ والدین کے ساتھ اولاد کو ” احسان“ کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ 2۔ والدین اولاد کو شرک پر آمادہ کریں تو اولاد کا فرض ہے کہ وہ شرک کرنے سے انکار کردے۔ 3۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کے بارے میں بتائے گا۔ 4۔ سچا ایمان رکھنے اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ صالح لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: والدین کے بارے میں ہدایات : 1۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ:83) 2۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہوا۔ (مریم :32) 3۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل :23) 4۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل :24) 5۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان :15) 6۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل :23) 7۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف :10) 8۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ (النساء :26) 9۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔ (الانعام :151)