سورة القصص - آیت 83

تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جو زمین میں بڑائی [١١٢] یا فساد [١١٣] نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیزگاروں کے لئے ہے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: (آیت83سے84) ربط کلام : قارون کی بربادی فخر و غرور کی وجہ سے ہوئی، اس لیے غرور اور تکبر سے اجتناب کرنے والوں کے اجر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کو دنیا کے مال و اسباب سے نوازا تھا۔ لیکن اس نے شکر اور عاجزی اختیار کرنے کی بجائے کفر اور تکبر کا رویہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجہ میں اسے اس کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ قارون کے انجام سے لوگوں کو بتلا دیا گیا ہے کہ تکبر کرنے والوں کا بالآخر یہ انجام ہوگا۔ جو لوگ اللہ کی نافرمانی اور فخر و غرور سے بچیں اور زمین میں دنگا وفساد کرنے سے اجتناب کریں گے۔ ان کے لیے آخرت کا بہتر گھر ہوگا اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی بتلا دیا گیا کہ امیر ہو یا غریب، دنیا کے لحاظ سے چھوٹا ہو یا بڑا جو بھی شریعت کے مطابق نیکی کرے گا اسے اس کی نیکی سے بڑھ کر ثواب دیا جائے گا اور جو اپنے رب کے حضور برائی کے ساتھ آئے گا اسے اس کی برائی کے برابر ہی سزاد دی جائے گی۔ نیکی کی بہتر جزا : ﴿مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَاوَ مَنْ جَآء بالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ [ الانعام :160] ” جو نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے دس گنا ثواب ہوگا اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسے اس کے برابر سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ ﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍوَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ [البقرۃ:261] ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ اہل علم نے ” عُلُوًّا“ کا معنی ” زیادتی، فخر و غرور“ بیان کرنے کے ساتھ دوسروں کو نیچا دکھانا لکھا ہے۔ سورۃ قصص کی ابتداء فرعون کے ظلم و زیادتی کے ذکر سے ہوئی۔ سورۃ کا اختتام فرعون کے قریبی ساتھی ہامان کے انجام سے کیا گیا ہے۔ فرعون نے اقدار کے نشہ میں ” اللہ“ کی توحید کو ٹھکرا دیا اور قارون نے دولت کے نشے میں آکر اللہ کے بندوں پر تکبر کا اظہار کیا۔ دونوں کا انجام بدترین ہوا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ فخر وغرور اور فساد فی الارض سے بچتے ہیں ان کے لیے آخرت کا بہترین گھر ہوگا۔ 2۔ متقین کا بالآخر انجام بہتر ہوگا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نیکی کی بہتر جزا دے گا اور برے کو اس کی برائی کے برابر سزا دے گا۔ تفسیر بالقرآن: نیکی اور برائی کا بدلہ : 1۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : 7تا8) 2۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس گناکا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام :160) 3۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص :84) 4۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس :52) 5۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات :37) 6۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت ہے۔ (الدھر :12) 7۔ تکبر کرنے والوں کو ذلّت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف :20)