فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
پر (ایک دن) وہ اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے [١٠٧] بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے نکلا۔ جو لوگ حیات دنیا کے طالب گار تھے وہ کہنے لگے : کاش ہمیں بھی وہی کچھ میسر ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، وہ تو بڑا ہی بختوں والا ہے۔
فہم القرآن: (آیت79سے82) ربط کلام : قارون کا عملاً فخر و غرور کا اظہار کرنا اور اس کا بدترین انجام ہونا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک دن قارون لباس فاخرہ پہنے ہوئے نوکروں، چاکروں اور اپنے دوست واحباب کے ساتھ پورے جاہ و جلال کے ساتھ بڑے جلوس کی شکل میں نکلا۔ تاکہ جاہ و حشمت اور اپنی دولت وثروت کی لوگوں پر دھاک بٹھا سکے۔ وہ اس جاہ و جلال اور شوکت و حشمت کے ساتھ نکلا کہ کمزور ایمان والے لوگ اس قدر مرعوب ہوئے کہ بے ساختہ پکار اٹھے کہ کاش! ہمیں بھی اس طرح کا مال اور اسباب دئیے جاتے جس طرح قارون کو دئیے گئے ہیں۔ یہ تو بڑا ہی خوش بخت اور اچھے نصیب والا ہے۔ لوگوں کی مرعوبیت دور کرنے اور ان کی حقیقی نعمتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے صاحب علم یعنی صالح کردار لوگوں نے انھیں سمجھایا کہ تم پر افسوس ہو کہ دنیا کے مال اور شان و شوکت سے مرعوب ہوئے جا رہے ہو۔ دیکھو اور غور کرو! کہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی اللہ کے ہاں دولت وہ اجر ہے جو صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کو حاصل ہوگا۔ اس اجر کو وہی لوگ پاسکیں گے جو سچے ایمان اور صالح کردار پر ثابت قدم رہیں گے۔ صاحب علم لوگ ابھی کمزور ایمان والوں کو سمجھا ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے مال اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ جب وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ زمین میں دھنس رہا تھا تو اس کے حواری اور نوکر چاکر اس کی کوئی مدد نہ کرسکے جو کل اس پر رشک کر رہے تھے آج اپنے آپ پر افسوس کرنے لگے اور بے ساختہ کہہ اٹھے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے سرفراز کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ رکھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی قارون کے ساتھ دھنسا دیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے باغیوں اور منکروں کو حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ صبر و استقامت کی اہمیّت : صبر بے بسی کا نام نہیں صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ پریشانیوں پر حوصلہ رکھنے کا نام صبر ہے اور صبر کرنے والے کو آخرت میں بغیرحساب جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ﴾ [ البقرۃ:152] ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔“ ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا باالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ﴾ [ البقرۃ:152] ” صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیجیے۔“ ﴿اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابِ﴾[ الزمر :10] ” صبر کرنیوالوں کی جزاء حساب و کتاب کے بغیر جنت کا داخلہ ہے۔“ حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے وہ شخض زندگی کے حقائق سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ جس میں صبر واستقامت کا فقدان ہو۔ (سیرت عمر فاروق (رض) (قُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرو اور پھر اس پہ ڈٹ جاؤ۔“ تفسیر بالقرآن: صبر کا مفہوم اور اس کا صلہ : 1۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود :11) 2۔ صبربڑے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ (الاحقاف :35) 3۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 4۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ صبر کرنے والے بغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ (الزمر :10)