إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
بلاشبہ قارون موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) سے تھا : پھر وہ اپنی قوم کے خلاف ہوگیا (اور دشمن قوم سے مل گیا) اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیئے تھے جن کی چابیاں ایک طاقتور جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی۔ [١٠١] ایک دفعہ اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا'': اتنا اتراؤ نہیں'' [١٠٢] اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
فہم القرآن: (آیت76سے77) ربط کلام : اس سورۃ مبارکہ کی آیت 57میں اہل مکہ کے عذر لنگ کا ذکر کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس نبی کی اتباع کریں تو ہمارے کاروبار تباہ ہوجائیں گے۔ سورت کے اختتام میں اہل مکہ اور دنیا پرست لوگوں کے سامنے ایک سرمایہ دار کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اہل علم نے توراۃ اور تاریخ کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بغاوت اور اپنی قوم کے ساتھ غداری کی۔ جس کے معاوضہ میں فرعون نے اسے اپنے ہاں ایک خاص مقام دیا۔ حکومتی خزانے کے بعد ملک بھر میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس تھی۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ سینکڑوں خچر اور اونٹ اس کے خزانے کی چابیاں اٹھایا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے قارون کے بارے میں فقط اتنا بتلایا ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم یعنی بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ اپنی قوم کے برخلاف چلا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی رسی دراز کی اور اسے اس قدر مال دیا جس کی چابیاں ایک طاقت ور جماعت بھی مشکل سے اٹھایا کرتی تھی۔ قارون اپنے مال پر اترانے والا اور یتیموں، مسکینوں کے حقوق سلب کرنے والا تھا۔ اس کی قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا کہ اپنے مال پر اکڑ پھکڑکا اظہار نہ کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اکڑ پھکڑ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ فخر و غرور کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تجھے دے رکھا ہے۔ اس سے آخرت کا گھر بنانے کی کوشش اور مال سے ذاتی طور پر فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی خدمت کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر احسان فرمایا ہے اس لیے تجھے بھی کمزور لوگوں پر احسان کرنا چاہیے۔ کمزوروں کی مدد نہ کرنا، یتیموں، مسکینوں کے حقوق ادا کرنے سے اجتناب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے۔ مال پر تکبر کا اظہار کرنا زمین میں فساد کرنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مسائل: 1۔ قارون اپنی قوم کا غدّار اور فرعون کا دست راز تھا۔ 2۔ قارون اپنے مال پر اترانے والا تھا۔ 3۔ اس کی قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ فخر و غرور میں آگے ہی بڑھتا گیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ فخر و غرور اور فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ 5۔ جس پر اللہ تعالیٰ احسان فرمائے اسے لوگوں پر احسان کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پسند نہیں کرتا ؟ 1۔ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :36) 2۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :107) 3۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ:64) 4۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام :142) 5۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النحل :23) 6۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الروم :45) 7۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :22) 8۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ :40) 9۔ اسراف کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ (الانعام :141)