وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
اور جس دن اللہ انھیں پکارے گا اور پوچھے گا : ’’کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا شریک خیال کرتے تھے؟‘‘
فہم القرآن: (آیت74سے75) ربط کلام : ” اللہ“ کی قدرتوں اور لیل و نہار کی گردش میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا تو پھر ذات کبریا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے کا کیا جواز ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں جس بات کی سب سے زیادہ تر دید اور مذّمت کی ہے وہ شرک ہے۔ شرک کرنے والا جن کو ” اللہ“ کے ساتھ یا اس کے سوا پکارتا ہے وہ کسی نہ کسی درجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتا یا کم ازکم اس کے اختیارات میں شریک سمجھتا ہے۔ مشرکوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا بتاؤ جنھیں تم میرا شریک بناتے تھے کہاں ہیں ؟ اگر ہیں تو انھیں سامنے لاؤ تاکہ وہ اپنی اور تمھاری مدد کرسکیں۔ جو بزرگ دنیا میں لوگوں کو شرک سے منع کرتے رہے۔ وہ رب ذوالجلال کے حضور اپنی صفائی پیش کریں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے ان لوگوں کو شرک کی نہ تعلیم اور نہ ہی ترغیب دی تھی۔ ہمارے بعد انھوں نے خود ہی ہمیں آپ کا شریک بنا لیا تھا۔ جو لوگ بزرگی اور پیری فقیری کے چکر میں شرک کی تبلیغ اور ترغیب دیتے رہے۔ وہ رب ذوالجلال کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے ملائکہ انھیں مجرموں کی صورت میں رب تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر اُمّت سے ایک دوسرے پر لوگوں کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے تاکہ مشرکوں کو عملاً معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ تھا کہ نہ اس کا کوئی شریک تھا اور نہ ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے مشرک سب کچھ بھول جائیں گے اور نہ ہی شرک کی حمایت میں کوئی دلیل پیش کرسکیں گے۔ انبیاء کرام کی گواہی : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَآأَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا﴾) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا یا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا انہوں نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے محمد (ﷺ) اور اس کی امّت۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرک سے ان کے شرک کے بارے میں سوال کرے گا۔ 2۔ مشرک اپنے شرک کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکیں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے پر گواہ کے طور پر پیش کرے گا۔ 4۔ ہر نبی اپنی امت پر گواہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن شہادتیں : 1۔ اس دن تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور وہ پیشی کا دن ہوگا۔ (ھود :103) 2۔ افترا پردازی کرنے والوں کے خلاف شہادتیں پیش کی جائیں گی۔ (ھود :18) 3۔ قیامت کے دن مجرم کے منہ پر مہر لگادی جائے گی اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ ( یٰس :65) 4۔ قیامت کے دن ہاتھ، پاؤں اور زبان مجرم کے خلاف شہادت دیں گے۔ ( النور :24) 5۔ قیامت کے دن مجرم کے خلاف اس کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دے گا۔ (حٰم السجدۃ:20) 6۔ سب کا حساب کتاب لکھا ہوا ہے اور فرشتے ان پر گواہی دیں گے۔ (المطففین : 20۔21) 7۔ انبیاء کرام اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دینگے۔ ( النساء :41)