وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
نہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ بس دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی زینبت ہے، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر [٨٣] اور پائندہ تر ہے۔ کیا تم سوچتے نہیں؟
فہم القرآن: (آیت60سے61) ربط کلام : دنیا دار لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دین پر عمل کرنے سے ان کا نقصان ہوگا۔ اس فرمان میں ان کے اس ذہن کی نفی کی گئی ہے۔ اہل مکہ کا خیال تھا کہ اگر ہم عقیدہ توحید اپنائیں اور دین اسلام کو قبول کریں گے تو لوگ ہمارے مخالف ہوجائیں گے جس سے ہمیں کاروباری لحاظ سے نقصان پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ذہن کی نفی کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ اے لوگو! تم اپنے محدود علم کی بنیاد پر یہ سوچتے ہو کہ اگر تم نے توحید خالص کو اپنایا اور دین اسلام کو اختیار کیا تو تمھیں دنیا کے حوالے سے نقصان پہنچے گا۔ یاد رکھو ! یہ دنیا عارضی اور اس کی زیب و زینت ناپائیدار ہے اگر تمھیں اللہ کے راستے پر چلنے سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ نقصان آخرت کے مقابلے میں عارضی اور قابل تلافی ہے۔ جو کچھ تمھارے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ لامحدود اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اگر تم حقیقی عقل رکھنے والے ہو تو سوچو اور غور کرو ! تمھیں ہمیشہ ہمیش رہنے والی نعمتوں کے لیے کام کرنا ہے یا فنا ہونے والی دنیا کو ترجیح دینا ہے۔ جس نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو مقدم جانا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بہترین وعدہ ہے جسے وہ اپنے سامنے پائے گا۔ اس لیے سوچ لوکہ جسے ہم صرف دنیا کا فائدہ دیتے ہیں وہ بہتر ہے یا آخرت کی لا محدود اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی زندگی اور اس کی نعمتیں۔ اس حقیقت کے باوجود جس نے دنیا کو آخرت کے مقابلے میں مقدم سمجھا وہ آخرت میں ضرور ذلیل ہوگا۔ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت سہل بن سعد الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ ملنا جو کچھ زمین میں ہے اس سے بہتر ہے۔“ مسائل: 1۔ دنیا کی زندگی اور اس کے اسباب عارضی ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ دنیا و مافیھا سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے اور اچھے ہیں جن کا صلہ ہر مومن اپنے سامنے پائے گا۔ 4۔ جس نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم جانا وہ آخرت میں ذلیل ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر ہے : 1۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں نہایت مختصر ہے۔ (التوبۃ:38) 2۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد :26) 3۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء :77) 4۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن :43) 5۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن :39) 6۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید :20) 7۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ:17) 8۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام :32)