قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَىٰ مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
آپ ان سے کہئے : اگر تم سچے ہو تو اللہ کی طرف سے تم ہی کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے بڑھ کر رہنمائی کرنے والی ہو، میں بھی اس کی پیروی [٦٧] اختیار کروں گا۔
فہم القرآن: (آیت49سے50) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کو جادو گر اور قرآن مجید کو من ساختہ کتاب قرار دینے والوں کو چیلنج۔ نبی اکرم (ﷺ) کے سچا رسول اور قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں قرآن مجید نے منکرین کو بار بار چیلنج کیا ہے کہ اگر تمھیں رسول کے سچا اور قرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے میں شک ہے تو تم بھی ایسی کتاب لے آؤ۔ ہاں تمھیں یہ بھی اختیار دیا جاتا ہے کہ پورا قرآن نہیں بناسکتے تو ایک سورۃ ہی اس کی سورۃ جیسی بنا کرلے آؤ۔ بے شک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا جس سے مدد لے سکتے ہو اس سے مدد حاصل کرو لیکن یاد رکھو نہ تم نے آج تک یہ کام کیا ہے اور نہ قیامت تک کر سکوگے۔ قرآن مجید بنانا تو درکنار اس کی سورۃ جیسی ایک سورۃ بھی نہیں بنا سکتے اس لیے تمھیں اس آگ سے بچنا چاہیے جس کا ایندھن نافرمان لوگ اور پتھر ہوں گے۔ اس چیلنج کو یہاں ان الفاظ میں دوہرایا گیا کہ اگر سمجھتے ہو کہ تمھاری رہنمائی کے لیے کوئی اور کتاب بہتر ہو سکتی ہے تو اسے پیش کرو ! اگر تم اپنے الزام اور دعویٰ میں سچے ہو۔ کفار کو چیلنج دینے کے ساتھ ہی نبی (ﷺ) اور آپ کے ماننے والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ اس چیلنج کا سامنا نہیں کر پا رہے تو یاد رکھو یہ لوگ محض اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ یعنی ان کے پاس کوئی معقول دلیل اور عذر نہیں۔ اور محض تعصّب کی بنیاد پر مخالفت کر رہے ہیں۔ درحقیقت اس شخص سے بڑھ کر کوئی شخص گمراہ نہیں ہوتا جو اپنی خواہشات کا غلام ہوچکا ہے۔ نہ اس کے پاس ہدایت کا کوئی ذریعہ ہے اور نہ ہی اللہ کی طرف سے دیا ہوا علم ہے۔ جب کہ ہدایت کی بنیاد ” اللہ کا علم ہے جو صرف سرور دو عالم (ﷺ) پر وحی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ جو شخص سچے قرآن کو جھٹلاتا ہے وہ پرلے درجے کا ظالم ہے ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہٗ تَبَعًا لِّمَا جِئتُ بِہٖ) [ رواہ فی شرح السنۃ] ” عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع نہ کر دے۔“ ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بالْآخِرَۃِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلآئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَاِِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا فَاَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ اِِلَّا الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا﴾[ النجم : 27تا29] ” جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس کا انہیں کچھ بھی علم نہیں وہ محض ظن کی اتباع کرتے ہیں اور ظن حق کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہیں آتا۔ لہٰذا جو شخص ہماری یاد سے منہ موڑتا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا آپ اس کی پرواہ نہ کیجئے۔“ مسائل: 1۔ آدمی کو اپنی خواہشات کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی اتباع کرنا چاہیے۔ 2۔ اپنی خواہش کے پیچھے لگنے والا پرلے درجے کا ظالم ہوتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ظالم کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کے چیلنجز : 1۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل :88) 2۔ کوئی دس سورتیں بنا لاؤ۔ (ھود :13) 3۔ کوئی اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔ (یونس :38) 4۔ قیامت تک نہیں بنا سکتے۔ (البقرۃ:23)