وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور (آپ کو اس لئے رسول بنا کر بھیجا ہے کہ) کہیں ایسا نہ ہو کہ انھیں ان کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نصیحت پہنچے تو کہنے لگیں : ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوجاتے۔[٦٣]
فہم القرآن: ربط کلام : مجرم لوگ اس وقت تک نصیحت حاصل نہیں کرتے جب تک ان کی گرفت نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو اس لیے قرآن مجید کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ لیکن آپ (ﷺ) کے مخاطب نصیحت حاصل کرنے کی بجائے آپ کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئے۔ آپ کو تسلی دینے اور مجرموں کو انتباہ کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ اصول نہ ہوتا کہ وہ مجرموں کو دنیا میں ہلکی پھلی سزا دے تو لوگ کبھی بھی اپنے رب کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ جب لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے انھیں پکڑتا ہے تو اس وقت وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کیوں نہ اپنا رسول مبعوث فرمایا؟ تاکہ ہم اس کی اتباع کرتے اور مومن بن جاتے۔ اس ارشاد میں بین السطور رسول معظم (ﷺ) کے مخالفوں کو سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم نے تسلیمات کا رویہ اختیار نہ کیا تو ایک وقت آئے گا جب تم اپنے رب کی بارگاہ میں اس حسرت کا اظہار کرو گے کہ کاش ہم اپنے رسول کی اتباع کرتے اور آج عذاب سے بچ جاتے۔ قیامت کے دن مجرموں کا اقرار کرنا : ﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا﴾[ الفرقان :27] ” اس دن ظالم لوگ اپنے ہاتھوں پر کاٹتے ہوئے کہیں گے۔ کاش ہم نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی۔“ مسائل: 1۔ مجرم عذاب آنے سے پہلے نصیحت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ 2۔ ” اللہ“ کے رسول آچکے لیکن مجرم ماننے کے لیے تیار نہیں۔