وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
اس کے بعد ہم نے کئی نسلیں پیدا کیں اور ان پر بہت زمانہ بیت [٥٩] چکا ہے اور آپ مدین کے باشندے بھی نہ تھے کہ انہیں [٦٠] ہماری آیات پڑھ کر سناتے مگر ہم ہی ہیں جو (آپ کو رسول بنا کر اس وقت کی خبریں بھیج رہے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت45سے46) ربط کلام : طور اور مدین میں آپ (ﷺ) کی غیر حاضری کے ثبوت سے آپ کی نبوت کے دو مزید دلائل دیے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکل کر مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں آٹھ یا دس (10) سال گزارے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انھیں اپنی دامادی کے شرف سے مشرف فرمایا۔ طے شدہ مدت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں انھیں طور کی دائیں جانب روشنی نظر آئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ کو یہ کہہ کر اس روشنی کی طرف بڑھے کہ آپ یہاں ٹھہریں میں وہاں سے تاپنے کے لیے آگ کا انگارہ لاتا ہوں یا پھر اگلے سفر کی رہنمائی حاصل کرتا ہوں۔ اِ ن واقعات کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ ان مقامات پر موجود نہ تھے یہ تو آپ پر آپ کے رب کا کرم ہے کہ آپ ان لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے ہیں۔ جس میں ہزاروں سال پہلے ہونے والے واقعات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے بیان کرنے والا خود موجود ہو۔ یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ آپ (ﷺ) اس قوم کو ان کے برے انجام سے آگاہ فرمائیں۔ جس کے پاس اس سے پہلے براہ راست کوئی پیغام دینے والا پیغمبر نہیں آیا۔ یہ نبی اکرم (ﷺ) کی نبوت کا تیسرا ثبوت ہے کہ مکہ اور مدینہ کی سر زمین پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد اور آپ (ﷺ) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا۔ اس سے پہلے جو رسول آئے وہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے نبی اکرم (ﷺ) پہلے اور آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ یہاں تک کہ حجاز میں رہنے والے پہلے لوگوں کا تعلق ہے ان کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب ضرور مہیا فرمائے تھے جن سے انھیں نسل در نسل دین ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات پہنچتی رہیں یہی وجہ ہے کہ مکہ میں ایک گروہ ایسا تھا جو اپنے آپ کو ملت ابراہیم کا پیرو کار کہتا اور سمجھتا تھا اور اسی بناء پر ہی دین ابراہیم (علیہ السلام) کی کئی باتیں بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھیں۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ (رض) عَنِ النَّبِی (ﷺ) قَالَ إِذَا رَأَیْتَ اللَّہَ یُعْطِی الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْیَا عَلَی مَعَاصِیہِ مَا یُحِبُّ فَإِنَّمَا ہُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلاَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ﴾( [ رواہ احمد : مسند عقبۃ بن عامر] حضرت عقبہ بن عامر (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں جب اللہ بندے کو اس کی نافرمانیوں کے باوجود اسے عطا کرتا جائے جس کا وہ خواہش مند ہوتا ہے۔ یہی وہ مہلت ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے پھر آپ (ﷺ) نے اس آیت کی تلاوت کی (جب ان چیزوں کو بھول گئے جن کی ہم نے انہیں نصیحت کی تھی ہم نے ان کے لیے ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کے جب وہ اس پہ خوش ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کے رہ گئے۔“ مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ان کے برے کاموں سے ڈرانا ہے۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) سے پہلے مکہ اور مدینہ کی سرزمین پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کیا گیا۔