فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
چنانچہ اس کے پروردگار نے اس کی منت کو بخوشی قبول فرمالیا اور نہایت اچھی طرح اس کی نشوونما کی اور زکریا کو اس کا [٤٠] سرپرست بنا دیا۔ جب بھی زکریا مریم کے کمرہ میں داخل [٤١] ہوتے تو اس کے ہاں کوئی کھانے پینے کی چیز موجود پاتے اور پوچھتے ’’مریم! یہ تجھے کہاں سے ملا ؟‘‘ وہ کہہ دیتیں ’’اللہ کے ہاں سے‘‘بلاشبہ اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے
فہم القرآن : (آیت 37 سے 39) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت مریم علیہا السلام جب بڑی ہوئیں تو انہیں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں دیا گیا۔ اس زمانے کے مذہبی رواج کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف لوگ تارک الدّنیا ہو کر مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتربیت اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے الگ کرلیا ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام انہی ذاکرات میں شامل ہو کر اپنے حجرے میں محو عبادت رہا کرتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپر دتھا۔ ایک دن زکریا (علیہ السلام) ان کے ہاں حجرے میں تشریف لائے تو ان کے پاس غیر موسمی عمدہ پھل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ بیٹی مریم یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ مریم علیہا السلامنے جواب دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلا حساب رزق سے نوازتا ہے۔ یہ سنتے اور خدا کی قدرت دیکھتے ہی حضرت زکریا (علیہ السلام) کے رونگٹے کھڑے ہوئے اور وجود تھرّانے لگا اور بے ساختہ ہاتھ اللہ کے حضور اٹھے اور فریاد کرنے لگے کہ اے میرے رب! مجھے بھی اپنی جناب سے نیکو کار اولاد نصیب فرما یقینًا تو دعا سننے والا ہے زکریا (علیہ السلام) ابھی اسی حجرے میں نماز کی حالت میں کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے آپ کو یہ نوید سنائی کہ اے زکریا! خوش ہوجائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائیں گے جس کا نام یحییٰ ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہوگا نہایت ہی پاک باز، اپنے آپ کی حفاظت کرنے والا اور انبیاء میں سے ہوگا۔ کلمہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ حصورًا کا معنی ہے کہ مجرّد رہیں گے جس کی غالبًا حکمت یہ تھی کہ یہود دنیا کے بندے بن چکے تھے۔ دنیا سے بے رغبتی دلانے کے لیے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے اپنی ذات کو نمونہ کے طور پر پیش کیا تاکہ ان میں دنیا کے بارے میں بے رغبتی پیدا ہوسکے۔ مسائل : 1۔ حضرت مریم علیہا السلامکو اللہ تعالیٰ نے خصوصی نشو و نما سے نوازا تھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بلا حساب رزق دیتا ہے۔ 3۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سردار اور شرم وحیا والے نبی تھے۔ تفسیربالقرآن : حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت : 1۔ کفالت میں جھگڑا۔ (آل عمران :44) 2۔ جھگڑے کے حل کا طریقہ کار۔ (آل عمران :44) 3۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کفیل ہوئے۔ (آل عمران :37) اولاد کی بشارت : 1۔ زکریا (علیہ السلام) کو یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت۔ (مریم :7) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسماعیل (علیہ السلام) کی خوشخبری۔ (الصافات : 101، الذاریات :28) 3۔ مریم علیہا السلام کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت۔ (مریم : 17، 19) 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور پوتے کی خوشخبری۔ (ھود :71)