فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
پھر جب موسیٰ ہمارے واضح معجزات لے کر ان (فرعونیوں) کے پاس آجائے تو وہ کہنے لگے : یہ تو محض شعبدہ کی قسم کا جادو ہے [٤٦] اور ایسی باتیں تو ہم نے اپنے سابقہ باپ دادوں سے کبھی سنی ہی نہیں۔ [٤٧]
فہم القرآن: (آیت36سے37) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ضمانت اور عطا کیے ہوئے معجزات کی وجہ سے فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سفر کے دوران دو عظیم معجزات عنایت فرمائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے معجزات ملنے کے بعد اپنے رب کے حضور دو التجائیں پیش کیں : بارِ الٰہ ! میرے بھائی ہارون کو میر اپشتی بان بنا اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دونوں گزارشات منطور کرلی گئیں۔ مصر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو لے کر۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معجزات اور ٹھوس دلائل کے ساتھ فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس پہنچے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھوس اور واضح دلائل کی طرف توجہ کرنے کی بجائے معجزات کا مطالبہ کیا۔ جونہی اس کی زبان سے یہ مطالبہ ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا دست مبارک اپنی بغل میں دبا کر ان کے سامنے کیا۔ جس سے فرعون کے ایوان میں روشن قمقمے اور مختلف قسم کی قندیلوں کی روشنی ٹمٹماتے دیوں کی طرح مانند پڑگئے۔ یدبیضا دیکھ کر فرعون اور اس کے حواریوں کی آنکھیں چکا چوند رہ گئیں۔ اتنا واضح معجزہ دیکھنے کے باوجود فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی ماننے سے انکار کردیا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا وہ خوفناک اژدھا کی صورت اختیار کرکے اپنے جبڑے کھول کر فرعون کے ایوان میں رینگنے لگا۔ اژدھا جس طرف منہ کرتا فرعون اور اس کے درباری چیخیں مارتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوتے۔ بالآخر مجبور ہو کر انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اس اژدھا کو قابو کریں تاکہ ہم آپ کی بات سننے کے قابل ہو سکیں۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اژدھا کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ دلائل سننے اور معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھی کہنے لگے ” اے موسیٰ ! یہ خدائی معجزات نہیں بلکہ آپ کے بنائے ہوئے جادو کی کرشمہ سازیاں ہیں جہاں تک آپ کی باتوں اور دلائل کا معاملہ ہے یہ ایسی باتیں ہیں جو نہ صرف ہم نے نہیں سنیں بلکہ پہلے لوگوں سے بھی ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔“ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اس موقع پر فقط اتنا ارشاد فرمایا کہ میرا رب اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہ اس شخص کے حال سے بھی خوب واقف ہے جس کا آخرت میں ٹھکانہ بہتر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو پہلا الزام لگایا وہ یہ تھا کہ ” اے موسیٰ ! تم جادوگر ہو۔“ یہ ایسا الزام ہے جو بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر لگایا گیا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت میں انتہا درجہ کی کشش اور ان کے معجزے ناقابل تمثیل ہوتے تھے۔ جن کا اثر زائل کرنے کے لیے آسان ترین الزام یہی تھا کہ ان کو جادوگر قرار دیا جائے۔ حالانکہ جادوگر گھٹیا کردار، افکار کے گندے اور پیٹ کے پجاری ہوتے ہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اس قسم کی گراوٹ سے کو سوں دور ہوتے ہیں۔ نبی اور جادوگر کے درمیان فرق سمجھنے کے لیے فہم القرآن: جلد :1 کا صفحہ 68ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل: 1۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھوس دلائل اور کھلے معجزات کو جادو قرار دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ اور گمراہ شخص کو خوب جانتا ہے۔ 3۔ حقائق کو جھٹلانے والا ظالم ہوتا ہے ظالم کبھی فلاں نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: جادو کا انجام : 1۔ جادوکفر ہے۔ (البقرۃ:102) 2۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف :116) 3۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ :102) 4۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ:69)