قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
ان میں سے ایک بولی، اباجان! اسے اپنا نوکر رکھ لیجئے۔ بہترین آدمی جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں وہی ہوسکتا ہے جو طاقتور اور امین ہو۔ [٣٦]
فہم القرآن: (آیت26سے28) ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کا شعیب (علیہ السلام) کے گھر جانا اور شعیب (علیہ السلام) کا انہیں گھر داماد بنانا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نہایت بوڑھے اور ضعیف ہوچکے تھے جس بناء پر ان کی بچیاں ان کی بھیڑ بکریوں کی نگرانی کرتی تھیں۔ ان کی برادری میں کوئی ایسا حیا دار جوان نہ تھا جس پر اعتماد کیا جا سکے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت شعیب مالی لحاظ سے کمزور ہوں جس وجہ سے ملازم رکھنے کی گنجائش نہ ہو۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں انھیں ایک جوان میسر آیا جو خود بھی ضرورت مند تھا اس لیے اسے گھریلو ملازم رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کا اشارہ مل چکا ہو۔ تاہم بظاہر واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیا اور ان کی طاقت کا اس بات سے اندازہ کیا کہ کنویں کا ڈول جسے کئی آدمی مل کر کھینچنے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) نے اکیلے ہی کھینچ کر ان کی بکریوں کو پانی پلایا۔ اس بات سے اندازہ کرتے ہوئے دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی نے والد سے درخواست کی کہ ہمیں صالح کردار ایک ملازم کی ضرورت ہے کیوں نہ ہو ابا جان اس شخص کو اپنے ہاں ملازم رکھ لیا جائے یہ شرم و حیا کے اعتبار سے امانتدار اور صحت کے لحاظ سے طاقتور ہے۔ قرآن مجید نے بچیوں کی عفت اور حیا کے پیش نظر وضاحت نہیں فرمائی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو گھر ملازم رکھنے کے لیے کس بچی نے سفارش کی تھی حالانکہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اس بچی نے کہی ہوگی جو موسیٰ (علیہ السلام) کو بلانے گئی تھی۔ حضرت شعیب نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے فرمایا میں چاہتا ہوں دو میں سے ایک بیٹی کا آپ سے نکاح کردیا جائے لیکن شرط یہ ہے کہ حق مہر کے طور پر تو آٹھ یا دس سال میرے ہاں ملازمت کرے میں تجھ پر کوئی سختی نہیں کروں گا۔ ان شاء اللہ تو میرا رویہ انتہائی صالح لوگوں جیسا پائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پہلے ہی چاہتے تھے کہ مجھے کوئی اچھا ٹھکانہ مل جائے اس لیے انھوں نے کہا کہ مجھے یہ بات منظور ہے البتہ یہ میری مرضی پر منحصر ہوگا کہ میں آٹھ سال کے بعد مزید دو سال آپ کی خدمت میں رہوں یا آٹھ سال پورے ہونے پر آپ سے فراغت چا ہوں۔ ہاں ! اگلے سال مدّت کے معاملہ میں مجھ پر کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے۔ جو میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے اللہ ہی اس پر نگران ہے۔ لہٰذا وقت کے پیغمبر حضرت شعیب (علیہ السلام) اور مستقبل کے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا۔ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ذمہ داری کا آغاز کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سسر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ وہ نبی نہیں تھے، حالانکہ ان کے پاس اس بات کی نفی کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلائل موجود نہیں۔ گو اس معاملہ میں دونوں طرف سے قطعی دلائل نہیں پائے جاتے تاہم یہ بات قابل غور ہے۔ جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجنا تھا اسے عام آدم کی بجائے خاص شخصیت کے ہاں رکھنا کہیں بہتر تھا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے واضح طور پر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اس معاہدہ کے ساتھ یا کچھ دنوں کے بعد ہی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا تاکہ وہ گھر کے فرد کی حیثیت سے رہیں اور پردہ کے معاملہ میں کوئی دقّت پیش نہ آئے۔ اس بات سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے جونہی بیٹی کے لیے نیک رشتہ میسر ہو تو آدمی کو اس فرض سے سبکدوش ہونے کی جلد کوشش کرنی چاہیے۔ باحیا نوجوان کو خود رشتہ کی پیشکش کرنے میں بھی کوئی حرج اور غیرت کے منافی بات نہیں ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ حق مہر جائیداد یا روپے کی شکل میں ہو۔ تاہم حق مہر میں داماد کی مالی حیثیت کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ حق مہر کی حیثیت : رسول اللہ (ﷺ) چند صحابہ (رض) میں تشریف فرما تھے ایک عورت نے (اپنے حالات سے مجبور ہو کر) اپنے آپ کو نکاح کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کیا آپ (ﷺ) خاموش رہے۔ اتنے میں ایک شخص عرض کرنے لگا اگر آپ آمادہ نہیں تو میں اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں کہ تیرے پاس حق مہر کے لیے کچھ ہے؟ اس نے عرض کیا یہ چادر جو میں نے لپیٹ رکھی ہے اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں۔ فرمایا کہ چادر اپنے پاس رکھو اور حق مہر کے لیے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آؤ۔ کوشش کے باوجود اسے انگوٹھی بھی میسر نہ ہوسکی وہ خالی ہاتھ واپس آیا۔ آپ پوچھتے ہیں کہ تجھے قرآن مجید یاد ہے؟ تو اس نے عرض کی کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ سورتیں حق مہر کے طور پر اپنی بیوی کو یاد کروا دینا۔ [ بخاری : کتاب النکاح] تین کاموں میں جلدی کرنا چاہیے : (عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ لَہُ یَا عَلِیُّ ثَلاَثٌ لاَ تُؤَخِّرْہَا الصَّلاَۃُ إِذَا آنَتْ وَالْجَنَازۃُ إِذَا حَضَرَتْ وَالأَیِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَہَا کُفْؤًا) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الْفَضْلِ] ” حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں۔ بے شک نبی کریم (ﷺ) نے اسے کہا اے علی تین کاموں میں تاخیر نہیں کرنی۔ جب نماز کا وقت ہوجائے، جب جنازہ حاضر ہو اور جب ہم پلہ رشتہ میسر آجائے۔“ مسائل: 1۔ ملازم پر سختی نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ معاہدہ کی پاسداری کرنا فریقین پر فرض ہے۔ 3۔ سُسر کو داماد اور داماد کو سسر کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ہی کار ساز ہے اسی پر توکل کرنا چاہیے : 1۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، بس تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام :102) 2۔ بے شک آپ (ﷺ) ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز کا کارساز ہے۔ (ہود :12) 3۔ اللہ ہر چیز کا قادر ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الزمر :41) 4۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کافی ہے کارساز۔ (النساء :132) 5۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا۔ اللہ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل :65) 6۔ وہ مشرق ومغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل :9)