وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ
پر جب انہوں نے [٣١] مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے میرا پروردگار مجھے ٹھیک راستے میں ڈال دے گا
فہم القرآن: (آیت 22سے24) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ملک مدین کی طرف ہجرت اور راستے کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر میں پیدائش پائی اور ان کی تربیت بھی مصر شہر میں ہوئی تھی۔ ملک مصر سے باہر موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ پہلا سفر تھا وہ بھی انتہائی غم اور پریشانی کے عالم میں اچانک پیش آیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہیں جانتے تھے کہ مدین کی طرف کون سا راستہ جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادۃً مدین کا سفر اختیار کیا یا اللہ تعالیٰ نے انھیں القاء فرمایا کیونکہ ابھی تک موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا نہیں کی گئی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدین مصر کے قریب تر ہو۔ بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مدین مصر میں شامل نہ تھا۔ جس وجہ سے فرعون کی وہاں تک رسائی نہ تھی۔ اِ ن وجوہات کے پیش نظر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کی طرف رخ کیا اور راستے میں مسلسل دعا کرتے رہے کہ میرے رب ! مجھے صحیح راستے کی رہنمائی فرما۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے قریب پہنچے تو انھوں نے ایک گروہ کو اپنی بھیڑ بکریوں کو کنویں سے پانی پلاتے ہوئے پایا۔ جب وہ کنویں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ دونو جوان لڑکیاں پانی کے انتظار میں کنویں سے ذراہٹ کر کھڑی ہوئی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اپنے جانوروں کو پانی پلائے جا رہے ہیں۔ کسی نے خیال نہ کیا کہ ہم بچیوں کو جانوروں کو پانی پلانے کا موقع دیں۔ اس سے مدین کے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ صورتحال دیکھی تو بے قرار ہو کر لڑکیوں کی طرف گئے، پوچھاکہ آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں ؟ انھوں نے حیا دار لہجے میں کہا کہ ہمارے باپ بوڑھے ہیں ہم اکیلی ہیں اور اس وقت تک اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر فارغ نہیں ہوپاتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کنویں کی طرف بڑھے اور لوگوں کو پیچھے ہٹا کر لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلایا خود پیچھے ہٹ کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر دعا کرنے لگے۔ میرے رب ! میں ایک پردیسی اور بھوکا آدمی ہوں تو جو بھی مجھ پر خیر نازل کرے گا میں اس کا محتاج اور طلب گار ہوں۔ یعنی میرے پاس کچھ بھی نہیں اس لیے ہر چیز کا محتاج ہوں۔ دوسروں کی خدمت کرنے والوں کا اجر : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ یوْمِ الْقِیمَۃِ وَمَنْ یَّسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یسَّرَ اللّٰہُ عَلَیہِ فِی الدُّنْیا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیہِ وَمَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَّلْتَمِسُ فِیہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہٖ طَرِیقًا اِلَی الْجَنَّۃِ وَ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیتٍ مِّنْ بُیوْتِ اللّٰہِ یتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَیتَدَارَسُوْنَہُ بَینَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَیھِمُ السَّکِینَۃُ وَغَشِیتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلٰئکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ وَمَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہُ لَمْ یسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہُ)[ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الاِجْتِمَاعِ عَلَی تلاَوَۃِ الْقُرْآنِ وَعَلَی الذِّکْرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی رسول کریم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں جس نے کسی مومن کو دنیا کی پر یشانی سے نجات دلائی‘ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی مشکلات سے نجات عطا فرمائے گا۔ جس نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا وآخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی مدد فرماتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے۔ جو حصول علم کے لیے سفر اختیار کرتا ہے رب کریم اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کرتے ہیں۔ جب بھی لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر یعنی مسجد میں جمع ہو کر قرآن مجیدکی تلاوت اور آپس میں تعلیم وتعلّم کا سلسلہ جاری کرتے ہیں تو ان پر سکون اور اللہ کی رحمت سایہ فگن ہوتی ہے ملائکہ انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں میں ان کا ذکر فرماتے ہیں جو شخص اپنے کردار کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اس کا حسب نسب اس کو آگے نہیں کرسکے گا۔“ (عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِی أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لِیَسْأَلْ أَحَدُکُمْ رَبَّہُ حَاجَتَہُ حَتَّی یَسْأَلَہُ الْمِلْحَ وَحَتَّی یَسْأَلَہُ شِسْعَ نَعْلِہِ إِذَا انْقَطَعَ) [ رواہ الترمذی : باب لیسئل احدکم ربہ] ” حضرت ثابت بنانی بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تمہیں اپنی ضرورت کی ہر چیز رب سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ نمک، اور جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی۔“ مسائل: 1۔ مجبورلوگوں کی مدد کرنا انبیاء (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ 2۔ مجبوری کے عالم میں شریعت کی حدود میں رہ کر عورت محنت مزدوری کرسکتی ہے۔ 3۔ انسان کو اپنی ہر حاجت اپنے رب کے حضور پیش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کرام (علیہ السلام) کا اپنے رب سے مانگنا : 1۔ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بے قراری اور غم کی شکایت صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف :86) 2۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف :23) 3۔ ایوب (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے پروردگار ! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الانبیاء :83) 4۔ یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کو پکارا۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے اور میں ہی قصور وار ہوں۔ (الانبیاء :87) 5۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء :89)