فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا يَتَرَقَّبُ فَإِذَا الَّذِي اسْتَنصَرَهُ بِالْأَمْسِ يَسْتَصْرِخُهُ ۚ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُّبِينٌ
پھر دوسرے دن صبح سویرے، ڈرتے ڈرتے اور خطرے کو بھانپتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی (آج پھر) ان سے فریاد طلب کر رہا ہے۔ موسیٰ نے جواب : تو تو صریح [٢٨] گمراہ شخص ہے۔
فہم القرآن: (آیت18سے21) ربط کلام : ناعاقبت اندیش اور نام نہاد مظلوم کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو وطن چھوڑنا پڑا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے قتل خطا کی معافی مانگتے ہوئے یہ بھی عرض کی تھی کہ بارِ الٰہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میں مجرم کی حمایت نہیں کروں گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جس شخص کی حمایت کی تھی وہ کتنا ناعاقبت اندیش اور بدفطرت تھا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اگلی صبح کل کے واقعہ کی وجہ سے ڈرتے ہوئے گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی شخص آج پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے طیش میں آکر فرمایا تو تو بڑا ظالم اور برا شخص ہے۔ یہ کہتے ہوئے موسیٰ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی کو پکڑیں تو جس کی کل حمایت کی تھی وہ کہنے لگا کہ اے موسیٰ کیا آج تو مجھے اسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کرچکا ہے تو اس ملک میں جبّار بن کر رہنا چاہتا ہے اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے موسیٰ (ﷺ) کل والے شخص کو پیچھے ہٹانا چاہتے ہوں جب آگے بڑھے تو اس نے شور مچا دیا کہ اے موسیٰ تو مجھے بھی کل کی طرح قتل کرنا چاہتا ہے۔ بنی اسرائیل اور فرعون کی قوم کے درمیان ظالم اور مظلوم کشمکش تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔ نہ معلوم اس وجہ سے فرعون کی قوم میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کس قدر خدشات پائے جاتے تھے ؟ فرعون کی قوم بالخصوص بر سر اقتدار لوگوں کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کا وجود بالیقین ناقابل برداشت تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ جوان فرعون کی آنکھوں کا تارا ہے اور فرعون کے بعد اسے ہی اقتدار حاصل ہوگا۔ بالخصوص انھیں اس لیے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رقابت تھی کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص اقتدار کے ایوانوں میں اس قدر کیوں مقبول ہوچکا ہے۔ جونہی انھیں معلوم ہوا کل کے مقتول کو موسیٰ (علیہ السلام) نے قتل کیا ہے تو ان کا حسد و بغض اپنی انتہا کو پہنچا اور انھوں نے قتل کے محرکات جانے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مؤقف سنے بغیر ہی فیصلہ کرلیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو فی الفور قتل کردینا چاہیے۔ اُنہی میں سے ایک شخص صبح کے وقت دوڑتا ہوا موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور سرداران فرعون کا فیصلہ سناتے ہوئے عرض کی۔ ” اے موسیٰ ( علیہ السلام) ! فرعون کے وزیروں، مشیروں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں آپ کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ فوری طور پر یہاں سے نکل جائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ خبر سنتے ہی ڈرتے ہوئے بھاگ نکلے کہ کہیں میرا تعاقب نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے فریاد کرنے لگے ” اے میرے رب ! مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرما۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دو وجہ سے قوم فرعون کو ظالم قرار دیا تھا۔ ایک یہ کہ قتل کے اسباب جاننے اور مؤقف سنے بغیر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سہوًا ایک آدمی قتل ہوا تھا لیکن انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ہزاروں آدمی اور معصوم بچوں کو قتل کیا تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں ظالم قوم قرار دیا۔ مسائل: 1۔ ناعاقبت اندیش اور ظالم کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔ 2۔ نادان دوست انسان کو کسی بھی آزمائش میں مبتلا کرسکتا ہے۔ 3۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے مشکل کے وقت صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مشکل حل کرنے والا نہیں۔ تفسیر بالقرآن: دشمن کے مقابلے میں انبیاء (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا : 1۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح :26) 2۔ اے اللہ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ (حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعا) (العنکبوت :30) 3۔ اے ہمارے رب! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعا)۔ (الاعراف :89) 4۔ اے ہمارے پروردگار! ان کے اموال کو ختم کردے اور ان کے دلوں کو سخت فرما۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا)۔ (یونس :88) 5۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (الانفال :10) 6۔ اللہ ہی سے مدد مانگنا چاہیے۔ (البقرۃ :45) 7۔ اللہ ہی بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔ ( حج :78)