وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
اور موسیٰ شہر میں اس وقت [٢٢] داخل ہوئے جب اہل شہر غفلت [٢٣] میں تھے۔ وہاں موسیٰ نے دو آدمیوں [٢٤] کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا۔ ان میں ایک تو موسیٰ کی اپنی قوم سے تھا اور دوسرا دشمن کی قوم سے۔ جو موسیٰ کی اپنی قوم سے تھا اس نے موسیٰ سے اس کے خلاف فریاد کی جو دشمن کی قوم سے تھا۔ موسیٰ نے اسے مکا مارا تو اس کا کام ہی تمام کردیا۔ موسیٰ نے کہا : یہ تو ایک شیطانی حرکت ہے۔ [٢٥] بلاشبہ شیطان صریح بہکانے والا دشمن ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہجرت کا سبب۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک طرف اپنی والدہ ماجدہ کی مبارک گود میں پرورش پائی اور دوسری طرف فرعون کے ہاں رہ کر امور سلطنت سے آگاہی حاصل کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو صرف بنی اسرائیل کا سیاسی رہنما ہی نہیں بنایا تھا بلکہ انھیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس لیے انھیں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس بھیجا تاکہ ان کی تربیت میں رہ کر پیغمبرانہ آداب سیکھ جائیں کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس ماحول میں پرورش پائی تھی اس میں تواضع اور انکساری کی بجائے جلال کا پہلو غالب تھا، پیغمبرانہ آداب سیکھنے کا یہ معنٰی ہرگز نہیں کہ پیغمبری کسی سے سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے، یہ تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہوتا ہے، جسے چاہتا ہے نبوت کے کام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دن دوپہر کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) محل سے باہر نکلے تو دیکھا کہ دو آدمی آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ ان میں ایک آدمی اسرائیلی تھا اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد چاہی موسیٰ (علیہ السلام) نے آگے بڑھ کر فرعون کے آدمی کو پیچھے ہٹانے کے لیے دھکا دیا تو ہاتھ لگتے ہی اس کی جان نکل گئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطان کا کام ہے جو انسان کا کھلا دشمن ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس واقعہ کو اس لیے شیطان کی طرف منسوب کیا کیونکہ لوگوں کو لڑانا شیطان کا کام ہوتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے قتل کرنے کے ارادے سے اس شخص کو دھکا نہیں مارا تھا، وہ تو دونوں کو چھڑانا چاہتے تھے۔ مگر وہ شخص جان ہار بیٹھا۔ مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادۃً فرعون کے آدمی کو قتل نہیں کیا تھا۔ 2۔ مظلوم کی مدد کرنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کا شیوہ اور مشن ہے۔ 3۔ ہر برا کام شیطان کی شیطنت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: شیطان انسان کا ابدی اور ازلی دشمن ہے۔ 1۔ شیطان نے کہا تھا کہ میں انسان کو گمراہ کرنے کے لیے دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ آور ہوں گا۔ ( الاعراف :17) 2۔ یقیناً شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف :22) 3۔ یقیناً شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔ (یوسف :5) 4۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھو۔ (فاطر :6) 5۔ یقیناً شیطان انسان کے ساتھ واضح دشمنی کرنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل :53) 6۔ شیطان انسان کو رسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (الفرقان :29) 7۔ شیطان لوگوں کے درمیان دشمنی ڈالنا چاہتا ہے۔ (المائدۃ:91) 8۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا، وہ انسانوں کا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف :32)