وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ
اور ہم نے پہلے سے ہی موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا۔ اس وقت موسیٰ کی بہن نے کہا : کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتہ بتلاؤں جو تمہارے لئے اس (بچہ) کی پرورش کریں اور وہ (اس بچہ) کے خیرخواہ [١٨] بھی ہوں؟
فہم القرآن: (آیت 12سے13) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دائیوں کا دودھ پینے سے انکار۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ کے سوا دوسری عورتوں کا دودھ نہ پیا۔ جس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دوسری دائیوں کا دودھ پینا حرام کردیا تھا۔ دودھ پلانے والی عورتوں نے بہت جتن کیے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کسی عورت کی چھاتی کو منہ لگانے کے لیے تیار نہ ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے ساتھ الہام کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ اے اُمّ موسیٰ ! غم کرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ تیرے لخت جگر کو نہ صرف تیرے پاس لائے گا بلکہ وقت آنے پر اسے الرّسول بنایا جائے گا۔ رب کریم نے اپنے وعدے کو اس طرح پورا فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ کے دودھ کے سوا کسی کا دودھ پینے کے لیے تیار ہی نہ ہوئے۔ دوسری طرف فرعون کی بیوی کا حال یہ تھا کہ وہ بچے کو بھوکا دیکھ کر بے قرار ہوئے جارہی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی بیوی کے دل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی محبت ڈال دی تھی اس لیے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بیزاری کا اظہار کرنے کی بجائے اس فکر میں تڑپنے لگے کہ اگر بچے نے دودھ نہ پیا تو اس کی زندگی خطرہ میں پڑجائے گی۔ اس صورتحال میں ایک بی بی نے کہا جس کے بارے میں مفسرین کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن تھی جس نے کہا کہ میں تمھیں ایسے گھر کی نشاندہی کرتی ہوں جو اس بچے کی کفالت بڑی خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ کریں گے۔ چنانچہ اس طرح ان کا موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے رابطہ ہوا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی والدہ کے پاس لوٹادیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی جدائی کا غم دور ہوجائے اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچ اور برحق ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اس سے بے علم ہوتے ہیں۔ بے علم سے مراد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کیے ہوئے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ دنیا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جَبَیْرِ بْنِ نُفَیْرِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الَّذِیْنَ یَغْزَؤُنْ مِنْ اُمَّتِیْ وَیَاْخُذُوْنَ اَلَجَعْلَ یَتَقُوَّوُنَ عَلَی عَدُوِّہِمْ مِثْلِ اُمِ مُوْسٰی تَرَضَعُ وَلَدَہَا وَتَاخُذَ اَجُوْہَا) [ سنن الکبری للبیہقی] ” حضرت عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میری امت کے غازیوں کی مثال جو اپنی مزدوری لیتے ہیں اور اپنے دشمن پہ جھپٹتے ہیں۔ موسیٰ کی ماں کی طرح ہے جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا اور اجرت حاصل کی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر دوسری عورتوں کا دودھ حرام قرار دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی ماں کے ہاں لوٹا دیا۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ کے وعدے پکے اور سچے ہوتے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے۔ (الاحزاب :4) 2۔ جان لو اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے۔ (القصص :13) 3۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کے لحاظ سے کون زیادہ سچا ہے۔ (النساء :87) 4۔ کفار عذاب کے بارے میں جلدی کر رہے ہیں اللہ اپنے وعدے کے ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ ( الحج :47) 5۔ اللہ کے قول سے بڑھ کر کس کا قول سچا ہوسکتا ہے۔ (النساء :122) 6۔ فرما دیجئے کیا تم نے اللہ سے عہد لیا ہے تو اللہ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ ( البقرۃ:80) 7۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمھیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان :33)