وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
ہم نے موسیٰ کی والدہ کی طرف الہام [١٠] کیا کہ اس بچے (موسیٰ) کو دودھ [١١] پلاتی رہو۔ پھر جب تجھے اس (کے قتل) کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ کچھ خود رکھنا اور نہ غم کھانا ہم اس بچے کو تیرے طرف ہی لوٹا دینگے اور اسے اپنا رسول بنا دیں گے۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا خوفزدہ ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں تسلّی دیے جانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام یوکا بد تھا اور انكے والد کا نام عمران بن قامت بن لادی بن یعقوب (علیہ السلام) تھا۔ عمران کے گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ایسے وقت میں ہوئی جب فرعون اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اس لیے ان کی والدہ اور اہل خانہ ان کی ولادت کے وقت سخت پریشان تھے کہ بچے کو قاتلوں کی نگاہ سے کس طرح محفوظ رکھیں؟ بہرحال جوں توں کر کے تین مہینہ تک ان کو ہر ایک کی نگاہ سے اوجھل رکھا اور ان کی پیدائش کے متعلق کسی کو خبر نہ ہونے دی لیکن جاسوسوں کی دیکھ بھال اور حالات کی نزاکت کی وجہ سے زیادہ دیر تک اس واقعہ کے پوشیدہ رہنے کی توقع نہ ہوسکی اور اس لیے ان کی والدہ سخت پریشان رہنے لگی۔ اس نازک وقت میں آخر اللہ نے مدد کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ القا کیا کہ ایک تابوت بناؤ۔ اس صندوق کو نیل کے بہاؤ پر چھوڑ دو۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے ایسا ہی کیا مگر ساتھ ہی ماں کی مامتا فکر مند ہوگئی۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ کو کہا کہ وہ دریا کے کنارے کنارے چل کر صندوق پر نظر رکھے اور دیکھے۔ اے موسیٰ ہم نے یہ دوسری مرتبہ تجھ پر احسان فرمایا ہے پہلا احسان یہ تھا کہ جب تیری والدہ کو ہم نے الہام کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کے بارے میں خطرہ محسوس کرے تو اسے صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کردینا تاکہ اسے میرا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن پکڑ لے دشمن سے مراد فرعون ہے جو سرکشی اور بغاوت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ سمجھا اور لوگوں سے کہلوایا اور اس نے محض نجومیوں کے کہنے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوں کو قتل کروا دیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کروائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) ناصرف فرعون کے گھر پر ورش پاتے ہیں بلکہ ان کی والدہ ہی ان کی دایہ اور مربیہ ٹھہرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے انھیں صندوق دریا کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے اُمِ موسیٰ فکر و غم نہ کرنا ہم اسے تیرے پاس لے آئیں گے۔ موسیٰ کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کا حکم جان کر موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کے حوالے کردیا۔ لیکن جب ماں کی مامتا تڑپ اٹھی تو موسیٰ کی بہن کو بھیجا کہ بیٹی دریا کے کنارے کنارے جاؤ اور دیکھو تیرے بھائی کا صندوق کہاں پہنچتا اور اسے کون پکڑتا ہے۔ دریا کی لہریں موسیٰ (علیہ السلام) کو لوریاں دیتے ہوئے فرعون کے محل تک پہنچا دیتی ہیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور جانوروں کو بھی الہام کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے پاس لوٹایا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ تفسیر بالقرآن: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے رسول منتخب کیا اور انھیں معجزات عنایت فرمائے : 1۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا کیا۔ (القصص :14) 2۔ حضرت موسیٰ کے معجزے برہان تھے۔ (القصص :32) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والے معجزے عطا کیے۔ (البقرۃ:53) 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کرنے والی روشن کتاب عنایت فرمائی۔ (الانبیاء :48)