إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
(اے نبی! کہہ دیجئے :) مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے مالک حقیقی کی اطاعت کروں جس نے اسے [١٠١] احترام بخشا اور جو ہر چیز کا مالک ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبردار بن کر رہوں۔
فہم القرآن: ربط کلام : قیامت کے دن نجات اخلاص پر مبنی اعمال پر ہوگی لہٰذا تمام نیکیوں کی بنیاد ” اللہ“ کی خالص عبادت کرنا ہے جس کا نبی اکرم (ﷺ) کو حکم دیا گیا کہ آپ سب سے پہلے اس پر عمل کریں۔ اہل مکہ کی عزت و تکریم پوری دنیا میں بالعموم اور ججاز میں بالخصوص اس بناء پر کی جاتی تھی کہ یہ لوگ مکہ کے مکین اور بیت اللہ کے متولّی ہیں۔ اس بناء پر نہ صرف ان کی تکریم ہوتی تھی بلکہ انھیں تجارتی فوائد کے ساتھ بڑے بڑے تحائف بھی موصول ہوتے تھے۔ بیت اللہ کی وجہ سے انھیں امن حاصل تھا۔ سفر کے دوران لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اس قافلے میں قریشی اور ہاشمی لوگ موجود ہیں تو لوٹ گھسوٹ کرنے والے قبائل اس قافلے پر ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کرتے تھے۔ لیکن قریش کی اپنی حالت یہ تھی کہ جس بیت اللہ کی وجہ سے انھیں عزت و احترام اور امن و امان حاصل تھا۔ انھوں نے کعبہ کے رب کی عبادت کرنے کی بجائے اس میں (360) تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ سرور دو عالم (ﷺ) کی دعوت کا خلاصہ یہ تھا اور ہے کہ صرف کعبہ کے رب کی ہی عبادت کی جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے۔ مکہ کے لوگ نہ صرف اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ وہ اس بات پر نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کے جانی دشمن بن چکے تھے۔ اس صورت حال میں نبی اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ بر ملا یہ بات فرمائیں اور اس پر قائم رہیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں شہر مکہ کے رب کی عبادت کروں جس نے اپنے گھر کی وجہ سے مکہ کو حرمت عطا فرمائی ہے، ہر چیز اسی رب کی ملکیت ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو اسی رب کا فرماں بردار ہونا چاہیے یہی حکم نبی (ﷺ) کو دیا گیا ہے کہ آپ سب سے پہلے ” اللہ“ کے تابعدار بن جائیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ َ أَنَّ خُزَاعَۃَ قَتَلُوا رَجُلاً مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ بِقَتِیلٍ مِنْہُمْ قَتَلُوہُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ النَّبِیُّ (ﷺ) فَرَکِبَ رَاحِلَتَہُ، فَخَطَبَ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِیلَ شَکَّ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ وَسَلَّطَ عَلَیْہِمْ رَسُول اللَّہِ وَالْمُؤْمِنِینَ، أَلاَ وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی أَلاَ وَإِنَّہَا حَلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارَ.........) [ رواہ البخاری : باب کِتَابَۃِ الْعِلْمِ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بیشک خزاعہ قبیلے کے لوگوں نے فتح مکہ کے سال بنی لیث کا ایک آدمی قتل کردیا۔ اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم (ﷺ) کو دی گئی آپ سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ یقینا اللہ نے مکہ میں قتل وغارت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یا آپ نے فیل کے لفظ استعمال فرمائے راوی کو شک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار پر اپنے رسول اور مومنوں کو مسلط فرمایا خبردارمجھ سے پہلے کسی کے لیے مکہ کی حرمت کو پامال کرنا جائز نہ تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے جائز ہوگا۔ میرے لیے کچھ وقت کے لیے ہی اس میں لڑائی کو جائز قرار دیا گیا۔“ ” حضرت واقد بن محمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہ رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم مہینہ کون سا ہے۔ صحابہ نے کہا یہ مہینہ۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم شہر کون سا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا مکہ۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم دن کون سا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا آج کا دن آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت کو محرم قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ جس طرح اس دن تمہارے اس شہر اور مہینے کی کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ آپ نے تین بار یہ کلمات دھرائے۔ سب نے کہا کیوں نہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا افسوس ہو تم پریا ویل ہو میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب ظھر المو من حمی الا فی حداو حق] مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کو حکم تھا کہ وہ مکہ کے رب یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو تکریم اور امن و سکون سے نوازا ہے۔ 3۔ ہر چیز پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ 4۔ نبی اکرم (ﷺ) صرف اپنے رب کے تابعدار تھے۔ تفسیر بالقرآن: بیت اللہ اور مکہ معظمہ کی عظمت وحرمت : 1۔ قسم ہے اس شہر کی۔ (البلد :1) 2۔ بیت اللہ دنیا میں پہلا گھر ہے جو بابرکت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران :96) 3۔ بیت اللہ امن کا گہوارہ ہے۔ (البقرۃ:125) 4۔ بیت اللہ کے باسیوں سے محبت کی جاتی ہے (القریش :1) 5۔ بیت اللہ کے طواف کا حکم ہوا ہے۔ (الحج :29) 6۔ پیدل اور سوار دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ (الحج :27) 7۔ اے میرے رب اس گھر کو امن والا بنانا۔ (ابراہیم :35) 8۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (التین :3)