مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ
جو شخص اس دن بھلائی [٩٨] لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر بدلہ ملے گا اور ایسے ہی لوگ اس دن گھبراہٹ [٩٩] سے امن میں ہوں گے۔
فہم القرآن: (آیت89سے 90) ربط کلام : قیامت کے دن اعمال کی بنیاد پر لوگ دو قسم کے ہونگے، ذلت اور درماندگی سے محفوظ رہنے والے حضرات اور ان کے مقابلے میں ذلیل ہونے والے لوگ۔ آیت 87میں ذکر ہوا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو زمینوں، آسمانوں اور اِ ن کے درمیان جو چیز ہے وہ لرز اور گھبرا جائے گی سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ تعالیٰ اس ذلت اور گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ اب ذلّت سے محفوظ اور اس سے دوچار ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جس شخص نے نیک کاموں میں زندگی بسر کی اس کے لیے بہترین بدلہ ہوگا اور اس دن ان کو گھبراہٹ سے محفوظ رکھا جائے گا۔ جس شخص نے برائی کے کاموں میں زندگی گزار دی اسے آگ میں الٹے منہ ڈالا جائے گا اور اعلان ہوگا کہ تمھیں صرف تمھارے برے اعمال کی سزا دی جائے گی۔ یعنی وہ اس لحاظ سے بھی بہتر ہوگا کہ جتنی نیکی اس سے زیادہ انعام اسے دیا جائے گا اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی نیکی تو وقتی تھی اور اس کے اثرات بھی دنیا میں ایک محدود زمانے کے لیے تھے مگر اس کا اجر دائمی اور ابدی ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نیک لوگوں پر احسان ہوگا۔ فرمان الٰہی ہے : ” جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کے لیے دس گناہ اجر ہے اور جو برائی کرے تو اسے صرف اسی کی سزا ملے گی۔ (الانعام :160) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (1) انصاف کرنے والا حکمران (2) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (3) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں جانے کے لیے فکر مند رہتا ہے (4) دو آدمی جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (5) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (6) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین وجمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (7) وہ آدمی جس نے صدقہ کیا اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔“ (رواہ البخاری : باب الصَّدَقَۃِ بالْیَمِینِ) (عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کَیْفَ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ قَالَ اَلَیْسَ الَّذِیْ اَمْشَاہُ عَلٰی الرِّجْلَیْنِ فِیْ الدُّنْیَا قَادِرٌ عَلٰی اَنْ یُّمْشِیَہٗ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)۔ (متفق علیہ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا۔ اے اللہ کے رسول ! قیامت کے دن کافر کس طرح منہ کے بل چل کر میدان محشر کی طرف جائیں گے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا وہ ذات اس بات پر قدرت نہیں رکھتی‘ جس نے دنیا میں ان کو پاؤں پر چلنے کی طاقت دی قیامت کے دن ان کو منہ کے بل چلائے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کو ان کی نیکیوں کی جزا دی جائے گی۔ 2۔ نیک لوگوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھا جائے گا۔ 3۔ برے لوگوں کو جہنم میں الٹے منہ پھینکا جائے گا۔ 4۔ برے لوگوں کو ان کی برائی کے برابر سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن نیک اور برے لوگوں کے درمیان فرق : 1۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلّت اور نحوست نہیں ہوگی اور وہ جنت میں قیام کریں گے۔ (یونس :26) 2۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس :27) 3۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ :22) 4۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج :73) 5۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس :38) 6۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس :40) 7۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر :83) 8۔ ” اللہ“ کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس :27)